کتاب: نور توحید - صفحہ 157
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرناچاہیے کہ ان پر کوئی فتنہ یا سخت عذاب نہ آپڑے۔‘‘ [آپ نے پوچھا:]جانتے ہو فتنہ کیا ہے؟ اس سے مراد شرک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو چھوڑ دے تو اس کے دل میں کجی آجائے اور وہ ہلاک ہو جائے۔‘‘ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے: ﴿اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُوُوْا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہ اِلَّا ھُوْ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ فَقُلْتُ لَہٗ اِنَّا لَسْنَا نَعْبُدُھُمْ قَالَ اَلَیْسَ یُحِرِّمُوْنَ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ فَتُحَرِّمُوْنَہٗ فَقُلْتُ بَلٰی قَالَ فَتِلْکَ عِبَادَتُھُمْ۔))[التوبہ 31] ’’ انہوں(یعنی عیسائیوں) نے اپنے علما، بزرگوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا، جالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان شریکوں سے پاک ہے جن کو وہ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ (تو حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ، جو کہ پہلے عیسائی تھے، فرماتے ہیں) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہم ان علماء اور بزرگوں کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا ایسا نہیں تھا کہ تم اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو ان کے کہنے پر حرام اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ان کے کہنے پر حلال سمجھتے تھے؟ میں نے کہا: واقعی ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہی ان کی عبادت ہے‘‘[1] اس باب کے مسائل: 1۔ سورہ نور کی آیت 63 کی تفسیر واضح ہوئی۔[جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور حکم عدولی کے انجام سے ڈرایا گیاہے] 2۔ سورہ التوبہ کی آیت 31کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔ 3۔ یہ بھی واضح ہوا کہ عبادت کا صرف وہ مفہوم نہیں جو عدی رضی اللہ عنہ نے سمجھ کر اس کا انکار کیا تھا۔[2] 4۔ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کسی بھی ہستی کو پیش نہیں کیا جاسکتا] ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے
[1] جامع ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورہ التوبہ، ح 3095۔علماء و امرا کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے ان کی اطاعت میں دین کو تبدیل کر ڈالنا، جس چیز کو وہ حلال کہیں اسے حلال سمجھنا اور جس چیز کو وہ حرام کہیں اسے حرام جاننا جبکہ اس بات کا علم بھی ہو کہ یہ چیز حلال ہے یا حرام، یہ سراسرا نہیں رب اور معبود بنا لینے کے مترادف ہے اور یہ بہت بڑا کفر اور شرک اکبر ہے کیونکہ اس صورت میں اطاعت(جو کہ عبادت کی ایک قسم ہے۔کا حق دار ، اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو ٹھہرایا گیا ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے اس مقام پر ، صوفیا ، تصوف کے باطل طریقوں اور صوفیا کی تعظیم میں غلو کرنے والوں کے بارے میں تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مشائخ اور اولیا، جن کو وہ اپنے زعم باطل میں اورلیا سمجھتے تھے حالانکہ وہ حقیقت میں اولیا نہیں تھے، کی دین کو تبدیل کرنے میں اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اسی اطاعت کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے ان کو رب اور معبود بنالیا تھا۔ [2] انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو اپنے علما اور بزرگوں کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ نے واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو علما کے کہنے پر حرام سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کو علما کے کہنے پر حلال سمجھنا بھی ان علما کی عبادت اور ان کو اپنے معبود گرداننے کے مترادف ہے۔