کتاب: نور توحید - صفحہ 156
باب: من اطاع العلماء والامرا فی تحریم ما احل اللّٰه او تحلیل باب: اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کردہ چیز کو حلال سمجھنے میں … [1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ: ((یُوْشَکَ اَنْ تُنْزِلَ عَلَیْکُمْ حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم وَ تَقُوْلُوْنَ قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ وَّ عُمَرُ۔)) ’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں ؛میں کہتا ہوں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے یوں کہا‘‘[2] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ((عَجِبْتُ لِقَوْمٍ عَرَفُوا الْاِسْنَادَ وَ صِحَّتَہٗ وَ یَذْھَبُوْنَ اِلٰی رَاْیِ سُفْیَانَ وَ اللّٰهُ تَعَالٰٰی یَقُوْلُ: ﴿فَلْیَحذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(النور:۶۳) لَعَلَّہٗ اِذَا رَدَّ بَعْضَ قَوْلِہٖٓ اَنْ یَّقَعَ فِیْ قَلْہِہٖ شَیْئٌ مِّنَ الزَّیْغِ فَیُھْلِکُ۔)) ’’ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو حدیث کی سند اور اس کے صحیح ہونے کا علم ہوجانے کے بعد بھی سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پر عمل کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَلْیَحذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(النور:۶۳)
[1] اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر علما اور اُمراء کی اطاعت کرنے والا مشرک ہے کیونکہ وہ اللہ کے سوا اُن لوگوں کو رب قرار دیتاہے۔مصنف رحمہ اللہ اس باب میں توحید کے تقاضے اور کلمہ شہادت کے لوازمات بیان کررہے ہیں۔یاد رہے! علماء دین کتاب و سنت کی نصوص کو سمجھنے کا ذریعہ اور واسطہ ہیں ان کی اطاعت، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع سمجھ کر کی جائے گی۔ مستقل طور پر اطاعت صرف اللہ عزوجل کی ہے۔البتہ وہ اجتہادی معاملات جن کے بارے میں کتاب وسنت کی کوئی نص صریح وارد نہیں ہوئی ان میں وہ قابل اطاعت ہیں کیونکہ اس کی اجازت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ شریعت نے ان مصلحتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ [2] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ قول بیان کیا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کے سامنے کسی دوسرے کی رائے پیش کرنے کے قائل نہ تھے، خواہ وہ قول اور رائے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسی جلیل القدر شخصیات ہی کی کیوں نہ ہو تو پھر ان سے کم مرتبہ کسی شخصیت کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے سامنے کیسے پیش کی جاسکتی ہے؟