کتاب: نور توحید - صفحہ 154
ضائع ہو جاتا ہے۔ اور ایسا کرنا شرک اصغر ہے؛ اور اب اس بات سے ڈر کر رہنا چاہیے کہ کہیں یہ دل میں شرک اکبر کے پیدا ہونے کا ذریعہ نہ بن جائے۔ [1] ۲۔ اگر اس کام پر آمادہ کرنے اصل سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی تلاش تھی؛پھر اس کے ساتھ لوگوں کو دیکھانے کا ارادہ بھی مل گیا ؛ اور اس انسان نے اپنے عمل میں اس برے ارادے کو ترک نہیں کیا ؛ تو ظاہری نصوص کی روشنی میں یہ عمل باطل ہوگیا۔ [2] ۳۔ اگر اس کام پر آمادہ کرنے اصل سبب صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور اس کی رضا مندی کی تلاش تھی؛لیکن عمل کرنے دوران ریاء کاری کا خیال بھی آگیا؛ اگر اس نے اس فاسد خیال پر قابو پاکر اسے ختم کردیا؛ اور اپنی نیت صرف اللہ کے لیے خالص کردی ؛ تو اس سے اس کے عمل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور اگروہ اس ریاکاری پر ہی رک گیا ؛ اورمطمئن ہوگیا؛ تو اس کے عمل میں کمی آجاتی ہے۔اور عمل کرنے والے کے ایمان اور اخلاص میں اسی قدر کمزوری آجاتی ہے جس قدر اس نے ریا کاری کی ہو۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے عمل کو خالص اللہ کی رضا کے لیے کردی اور ریا سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ [3] ریاکاری بہت بڑی آفت ہے۔جسے بہت ہی سخت علاج کی ضرورت ہے؛ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو اخلاص کا عادی بنانے کی مشق کرے۔ ریاء کاری اورمضر اغراض و مفاسد سے دور رہنے کے لیے بھر پور مجاہدہ کرے۔ اور ہر دم ان چیزوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کا طلب گار ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انسان کے ایمان اور توحید کو اپنے فضل و کرم سے خالص اپنی رضا کے لیے کردیں گے۔ دنیاوی غرض و غایت کے لیے عمل کی تفصیل: اگر انسان کا سارا مقصود ہی دنیا ہو؛ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اورآخرت کی چاہت بالکل شامل نہ ہو؛تو ایسے انسان کا
[1] جب ایک شخص کوئی عمل صالح اللہ کی رضا کے لئے انجام دیتا ہے جیسے صدقہ و خیرات، روزہ، نماز، رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور اُن سے حسن سلوک، یا کسی پر ظلم کرنے سے رُک جانا۔وہ ان اعمال کی بجا آوری میں آخرت کے اجر و ثواب کا متمنی نہیں ہوتا بلکہ چاہتا ہے کہ دُنیا میں ہی اُسے اس کا بدلہ مل جائے۔ ان اعمالِ حسنہ سے نہ تو وہ جنت کا طلبگار ہو اور نہ جہنم کے عذاب سے بچنے کی تمنا ہو۔ پس ایسے شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیا جاتا ہے۔ اور آخرت میں اس کا قطعاً کوئی حصہ نہ ہو گا۔ [2] دوسری قسم:یہ زیادہ خطرناک ہے، یہ کہ انسان عمل صالح انجام دے مگر نیت میں رِیاکاری اور لوگوں کو دکھلاوا ہو، آخرت میں کامیابی مد نظر نہ ہو۔ [3] تیسری صورت یہ ہے کہ انسان اعمالِ صالحہ کی بجاآوری سے دنیاوی مال و متاع کا خواہشمند ہو، جیسے سفر حج میں مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو، یا دنیا کے حصول کی خاطر؛ یا دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض یہ ہو کہ بال بچوں کا پیٹ پال سکے، جیسا کہ آج کل اکثر جگہوں پر ہورہا ہے۔ ـ چوتھی قسم یہ ہے کہ عمل صالح تو رضائے الٰہی کے لئے کرے، لیکن ان اعمالِ حسنہ کے ساتھ ساتھ ایسا عمل بھی کر رہا ہو جس سے وہ دین اسلام سے خارج سمجھا جائے گا جیسے یہود و نصاریٰ کا عبادتِ الٰہی کرنا، ان کا روزے رکھنا، ان کا صدقہ و خیرات کرنا جس سے ان کی اصل مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کر لیں اور آخرت میں کامران ہو جائیں۔ یا اسلام کا دعویٰ کرنے والے وہ افراد جو کفر و شرک میں مبتلا ہیں جس سے انسان دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہو جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ کوئی ایسا عمل صالح کریں جس سے آخرت کے عذاب سے نجات اور اللہ کی رضا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کے کفر و شرک میں ملوث اعمال کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال بھی برباد ہو رہے ہیں۔ اس حدیث سے درہم و دینار کی مذمت ثابت ہوتی ہے۔ جس نے درہم و دینار کے لیے عمل کیا وہ گویاکہ وہ ان کی عبادت کرکے شرک کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عبودیت کے درجات مختلف ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس چیز کا پجاری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ چیز ہی اس کے اس عمل کی محرک او باعث ہے۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ پجاری اپنے آقا کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے، اس کا آقا اس کا رخ جدھر بھی کردے وہ ادھر ہی ہولیتا ہے۔