کتاب: نور توحید - صفحہ 151
((اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِمَا ھُوَ اَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِیْ مِنَ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم قَالَ الشِّرْکُ الْخَفِیُّ یَقُوْمُ الرَّجُلُ فَیُصَلِّیْ فَیُزَیِّنُ صَلٰوتَہٗ لِمَا یَرٰی مِنْ نَّظرِ رَجُلٍ۔))[1]
’’کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!کیوں نہیں ؟(ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے شرک خفی کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے‘‘[2]
اس باب کے مسائل:
1۔ سورہ الکہف کی آیت 110کی تفسیر معلوم ہوئی۔
2۔ عمل صالح میں اگر غیر اللہ کا معمولی سا بھی دخل ہو جائے تو وہ سارا عمل مردود اور ضائع ہو جاتا ہے۔
3۔ اور اس کا اساسی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے مکمل طورپر مستغنی ہے۔
4۔ ریا والے عمل کے ضیاع کا ایک سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے والے تمام شرکاء سے اعلی اور افضل ہے۔
5۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں بھی ریا کا اندیشہ تھا۔
6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرمایا: کوئی آدمی نماز جیسا عمل کرتے ہوئے محض اس لیے اسے عمدہ طور پر ادا کرے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
[1] (مسند احمد:3/30 و سنن ابن ماج، الزھد، باب الریا و السمع، ح:4204)
[2] ریاء عام طورپر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی بجائے لوگوں کی طرف متوجہ کردیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)۔اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتن دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے۔اس شرک کو خفی اس لئے کہا گیا ہے کہ انسان لوگون کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا یہ عمل خالص اللہ کے لئے ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بباطن وہ غیر اللہ کے لئے انجام دے رہا ہے، کیونکہ وہ نماز اس لئے ٹھیک ادا کر رہا ہے کہ اُسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ترین دَور میں ہم ریاکاری کو شرکِ اصغر سمجھا کرتے تھے۔‘‘ (ابن جریر فی التہذیب)۔