کتاب: نور توحید - صفحہ 149
اس باب کی شرح: تقدیر پر صبر ایمان کا حصہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری پر صبراور نافرمانی سے اجتناب پر صبر ؛ ان دونوں کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہ صرف ایمان ہیں ؛ بلکہ اس کی بنیاد اوراساس ہیں۔ بیشک ایمان سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کی محبوب چیزوں اس کی رضامندی اور قربت کے کاموں پر صبر اور حرام کاموں سے اجتناب پر صبر کا نام ہے۔ بیشک دین کی چکی تین اصولوں کے گرد گھومتی ہے: ۱۔ اللہ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق؛ ۲۔ ان کے احکام کی اطاعت۔۳۔ اور نواہی سے اجتناب۔ [1] اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھ اور تکلیف دہ تقدیر پر صبر اسی عموم میں داخل ہے۔ لیکن اسے بطور خاص ذکر کرنے کی وجہ اس کی معرفت اور اس پر عمل کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ جب انسان کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ مصیبت بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے آتی ہے۔ اوراس تقدیر میں اللہ تعالیٰ کی کامل حکمت کار فرما ہوتی ہے۔ اوربندے کے حق میں اس کے مقدر ہونے میں ؛اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہوتی ہیں۔ اور ان مشکلات پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی قضاء کے سامنے سر تسلیم خم کرنا؛ اللہ تعالیٰ کی قربت کاکام ہے؛ جو اس سے ثواب کی امید پر اور عذاب کے خوف سے ہوتا ہے۔تاکہ اعلیٰ ترین اخلاق بطور غنیمت حاصل کرسکے؛ اور اس کا دل مطمئن ہو؛ اور اس کا ایمان اور توحید مضبوط ہو۔
[1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ صبر سے بہتر اور وُسعت پذیر چیز کسی کو نہیں دی گئی، اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ’’ہم نے اپنی زندگی کے اُس حصہ کو بہتر پایا جس میں صبر ہے۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ایمان میں صبر کو وہی مقام حاصل ہے جو انسان کے بدن میں سر کو ہے یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا دیکھو اُس شخص کا ایمان ہی نہیں جس میں صبر کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ للہ تعالیٰ کی تقدیر پر صبر کرنا انتہائی عظیم الشان اور جلیل القدر عبادت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا اور اس کی منہیات سے رکنا صبر ہی سے ممکن ہے۔ صبر کی تین اقسام ہیں:زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکوہ نہ کرنا، قلبی طور پر ناراضی محسوس نہ کرنا اور اعضاء کے ذریعہ بے صبری کا اظہار نہ کرنا...... یہ سب صبر ہی ہے۔