کتاب: نور توحید - صفحہ 147
باب: من الایمان باللّٰه الصبر علی اقدار اللّٰه
باب: تقدیر پر صبراللہ تعالیٰ پر ایمان کا حصہ ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰهِ یَھْدِ قَلْبَہٗ وَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَییئٍ عَلِیْمٌ﴾(التغابن:۱۱)۔
’’ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اللہ اُس کے دِل کو ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ شخص ہے جسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سمجھ کر اس پر راضی ہو اور دل سے اسے تسلیم کرے۔ [1]
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِثْنَتَانِ فِی النَّاسِ ھُمَا بِھِمْ کُفْرٌ اَلطَّعْنُ فِی النَّسَبِ وَ النِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ)) [2]
’’لوگوں میں دوکام ایسے ہیں جو کفر ہیں، ایک تو کسی کے نسب پر طعن کرنا اور دوسرے میت پر نوحہ کرنا‘‘[3]
بخاری اورمسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَ شَقَّ الْجُیُوْبَ وَ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ۔))[4]
[1] تفسیر ابن جریر الطبری، رقم26496)علقمہ رحمہ اللہ کا قول نہایت درست اور صواب پر مبنی ہے۔ یاد رہے! مصائب اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے آتے ہیں اور تقدیر کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ہوتا ہے اور اللہ عزوجل کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ ہر امر کو اس کے انجام کے مناسب و موافق مقام پر رکھا جائے جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی بندے کو مصیبت پہنچے تو اللہ کی طرف سے بندے کے لیے اسی میں خیر ہوتی ہے۔ اب اگر اس پر صبر کرے گا تو عند اللہ ماجور ہوگا اور اگر ناراضی کا اظہار اور شکوہ کرے گا تو گناہ گار ٹھہرے گا۔
[2] (صحیح مسلم, ِکتاب الإِیمانِ, باب ِطلاقِ اسمِ الکفرِ علی الطعنِ فِی النسبِ والنِیاحۃِ علی المیِتِ, ح: 67 ومسند احمد:2ظ 377, 441, 496)
[3] دو کام اکثر لوگوں میں موجود رہیں گے: نسب پر طعن کرنا اور نوحہ کرنا۔ رونا پیٹنا، چیخنا اور چلانا نوحہ ہے جو کہ صبر کے خلاف ہے۔ صبر کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاء پر کنٹرول رکھے، زور زور سے نہ روئے ، چہرے پر یا جسم کے کسی حصے پرتھپڑمارے، دامن نہ پھاڑے ، اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکوہ نہ کرے۔ان کاموں کے کفر ہونے کا یہ مفہوم نہیں کہ جو شخص یہ کام کرے وہ کافر ہوجاتا ہے یا وہ دین اسلام سے مکمل طورپر خارج ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو شخص یہ کام کرے یا جس میں یہ خصلت پائی جائے اس میں یہ خصلت کفار کی ہے۔ گویا یہ کفار کا کام ہے، مسلمانوں کا نہیں۔
[4] (صحیح البخاری, ِکتاب الجنائِزِ, باب: لیس مِنا من ضرب الخدود, ح:1297 وصحیح مسلم , ِکتاب الإِیمانِ, باب تحرِیمِ ضربِ الخدودِ وشقِ الجیوبِ … ح:103 ومسند احمد:1ظ 386, 432)