کتاب: نور توحید - صفحہ 144
باب:اَفَاَمَنُوْا مَکْرَ اللّٰهِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰهِ… باب: اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَفَاَمَنُوْا مَکْرَ اللّٰهِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾[المائدہ 23] ’’کیا وہ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں حالانکہ اللہ کی چال سے گھاٹا پانے والی قوم ہی بے خوف ہوتی ہے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ﴾[الحجر15] ’’ اور گمراہ لوگ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم سُئِلَ عَنِ الْکَبَآئِرِ فَقَالَ الشِّرْکُ بِاللّٰهِ وَ الْیَاْسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اللّٰهِ)) [1] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا، اور اللہ کی تدبیر اور گرفت سے بے خوف ہونا‘‘[2]
[1] (مسند البزار، ح:106 ومجمع الزوائد: 1/104) [2] اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف ایک قلبی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے تمام امور اس حد تک آسان کردے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوجائے کہ اب وہ مکمل طور پر محفوظ ہے، اب اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جالانکہ یہ مہلت اس کے حق میں استدراج یعنی ڈھیل ہوتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب تم دیکھو کہ کوئی بندہ مسلسل گناہ کیے جارہا ہو اور اللہ تعالیٰ اسے مزید انعامات سے نواز رہا ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج یعنی مہلت اور ڈھیل ہے۔‘‘ (مسند احمد: 4/ 145) اور اللہ تعالیٰ یہ تدبیر انہی لوگوں کے ساتھ کرتا ہے جو اس کے انبیاء و اولیاء اور اس کے دین کے ساتھ خفیہ تدبیریں اور مکروفریب کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفت کمال ہے کیونکہ وہ اپنی عزت و قدرت اور غلبہ و سلطنت کے اظہار کے لیے ایسا کرتا ہے۔دوسری آیت میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور ہدایت یافتہ لوگ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ عبادت الٰہی کے کامل ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی گرفت کا خوف اور اس کی رحمت کی امید رکھنا شرعا واجب ہے۔اللہ کی رحمت کی امید ترک کردینے کا نام مایوسی ہے اور اس کے عذاب اور گرفت سے نہ ڈرنے کا مطلب اس کی تدبیر سے بے خوف ہونا ہے۔ جبکہ دل میں ان دونوں (رحمت کی امید اور عذاب کا ڈر)کا ہونا ضروری ہے اور ان کے دل سے نکل جانے یا ان میں کمی واقع ہونے سے توحید میں نقص اور کمی واقع ہوجاتی ہے۔