کتاب: نور توحید - صفحہ 142
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ﴾(الانفال: ۲)
’’صحیح معنوں میں اہل ایمان وہ ہیں جن کے دل، اللہ کے ذکر سے لرز جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں ‘‘[1]
نیز اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤُمِنِیْنَ﴾(الانفال: ۶۴)
’’ اے نبی! آپ کو اور آپ کے پیروکار اہل ایمان کو بس اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَھُوَ حَسْبُہٗ﴾(الطلاق: ۳)
’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو اس کے لیے وہی کافی ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
((حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ قَالَھَا اِبْرَاھِیْمُ حِیْنَ اُلْقِیَ فِی النَّارِ وَ قَالَھَا مُحَمَّدٌ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم حِیْنَ قَالُوْا لَہٗ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ۔))(رواہ البخاری والنسائی)
’’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے‘‘ وہ کلمہ ہے جوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا ؛ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا جب لوگوں نے آپ سے کہا: ’’ کافروں نے آپ کے مقابلہ کے لیے لشکر جمع کر لیا ہے ان سے ڈرو تو ان کا ایمان مزید بڑھ گیا اور کہنے لگے:’’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے‘‘[2]
[1] اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’پہلے اللہ تعالیٰ نے منافقین کی علامات بیان فرمائی ہیں کہ فرائض کی ادائیگی کے وقت بھی ان کے دل میں ذکراللہ کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ٭ نہ اللہ تعالیٰ کی آیات پران کا ایمان ہے۔ نہ توکل علی اللہ کے قائل ہیں۔ جب مسلمانوں سے الگ ہوتے ہیں تو نماز نہیں پڑھتے۔ اور اپنے مال کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ مومن ہی نہیں ہیں۔
منافقین کی علامات بیان کرنے کے بعد مومنین کی صفاتِ حسنہ کوبیان کیاگیاہے: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کا…۔‘‘
[2] بعض سلف نے کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کی جزاء اس کی ذات سے رکھی ہے اور اللہ پرتوکل کی جزا اس کو کفایت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا نگران ہے۔‘‘ اور یہ نہیں فرمایا کہ اس کو اتنا اجر ملے گا، جیسا کہ دوسرے اعمال میں کہا ہے بلکہ متوکل کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو کافی اور اس کا محافظ بنایا ہے۔ اگر بندہ اللہ تعالیٰ پر پوری طرح توکل کرے اور اس کے خلاف زمین اور آسمان اور ان میں رہنے والی مخلوقات اس کے خلاف تدبیر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی کشادگی کی راہ پیداکرے گا اور رزق اور مدد میں اس کی کفایت کرے گا۔‘‘
سیدنا ابراہیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ میں اس عظیم الشان دعائیہ جملہ کی عظمت اور فضیلت کا پتا چلتا ہے کیونکہ یہ دومحبوب ترین انبیائے کرامعلیہم السلام کا متفقہ دعائیہ جملہ ہے اور وہ بھی انتہائی مشکل وقت میں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب تم کسی بڑی مصیبت میں گھر جاؤ تو یہ دعا وردِ زبان رکھا کرو، اللہ تعالیٰ ہر مشکل کو آسان کر دے گا۔ وہ عظیم دعا یہ ہے: ’’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘۔