کتاب: نور توحید - صفحہ 141
باب: قال اللّٰه تعالیٰ: وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مَّؤْمِنِیْنَ باب: اگر تم مؤمن ہو تو صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے [اس باب میں توکل علی اﷲ کو مومنوں کی ایک خاص علامت قرار دیاگیا ہے] [1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مَّؤْمِنِیْنَ﴾[المائدہ ۲۳] ’’تم اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرو، اگر تم مومن ہو‘‘[2] اور ارشاد الٰہی ہے:
[1] اس باب میں مسئلہ توکل کا بیان ہے۔ اللہ پر توکل کرنا ، دین و ایمان کی تصحیح و تکمیل کے لیے شرط ہے۔ شرعی طور پر توکل کا مفہوم یہ ہے کہ تمام قلبی عبادات کو اللہ ہی کے لیے بجالانا یعنی اپنے تمام تو امور و معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اسباب و ذرائع بھی اختیار کرنا۔ چنانچہ متوکل (اللہ پر توکل کرنے والا) وہ شخص ہو گا جو اسباب و ذرائع اختیار کرنے کے بعد اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اس سبب سے نفع، اللہ کے حکم ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور جس کام کے لیے یہ سبب اختیار کیا گیا ہے وہ بھی محض اللہ کی توفیق و اعانت ہی سے پورا ہو سکتا ہے کیونکہ تمام تر اختیارات اس مالک کے پاس ہی ہیں۔ گویا توکل خالص قلبی عبادت ہے۔غیر اللہ پر توکل کی دو صورتیں ہیں: (الف) جو امور صرف اللہ کے اختیار میں ہیں اور مخلوق میں سے کسی کی قدرت میں نہیں ، ان میں غیر اللہ پر توکل کرنا ، مثلا گناہوں کی مغفرت، اولاد و معاش کا حصول وغیرہ، شرک اکبر اور توحید کے منافی ہے اور اکثر اس کا ارتکاب قبر پرست اور اولیا پرست لوگ کرتے ہیں۔ (ب) جن امور کی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو قدرت دے رکھی ہے ان میں مخلوق پر توکل کرنا شرک خفی یا شرک اصغر ہے۔ مثلا یوں کہنا کہ میرا اللہ پر اور تم پر توکل ہے یا میرا اللہ پر اور پھر تم پر توکل ہے، ناجائز ہے۔ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے امور و معاملات کو اس اللہ کے سپرد کرنا جس کے قبضہ و اختیار میں سارے امور ہیں جبکہ مخلوق میں سے کسی کے پاس کوئی قدرت و اختیار نہیں ، البتہ مخلوق کو سبب اور ذریعہ ضرور بنایا جاسکتا ہے۔ لہذا مخلوق کو سبب اور ذریعہ بنانے کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ اس پر توکل بھی کیا جائے۔ [2] توکل علی اللہ کا دارومدار، توحید ربوبیت کو سمجھنے اور اس پر کامل ایمان رکھنے پر ہے اسی لیے بعض لوگ مشرک ہونے کے باوجود اللہ پر بہت توکل کرتے ہیں۔ کیونکہ توحید الوہیت پر تو ان کا ایمان نہیں ہوتا لیکن توحید ربوبیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یاد رہے!اللہ کی ربوبیت کے آثار میں غور و خوض کرنے سے دل میں توکل کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان اللہ کی عظیم بادشاہت اور آسمان و زمین کے مستحکم و مضبوط نظام کو دیکھتا اور اس کے بارے میں سوچ بچار کرتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس قدر پائیدار اور مربوط نظام کو چلانے والے مالک اور مولی کے لیے میری چھوٹی سی ضرورت پوری کرنے اور میری مدد کرنے میں کون سی مشکل ہے۔ اسی تدبر سے مومن کا ایمان اور اللہ پر توکل مزید بڑھ جاتا اور مضبوط ہو جاتا ہے۔پیشِ نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے توکل کو ایمان کی شرط قراردیا ہے، جس سے پتا چلا کہ جس دل میں توکل نہیں ، وہاں ایمان نہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو، اگرمسلمان ہو۔ (یونس: ۸۴)