کتاب: نور توحید - صفحہ 139
ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کردیتا ہے‘‘[1] اس باب کے مسائل 1۔ سورہ آل عمران کی آیت 175کی تفسیر واضح ہوئی[جس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب ہے]۔ 2۔ سورہ توبہ کی آیت 18 کی تفسیر بھی واضح ہوئی ہے[جس میں اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات مذکور ہیں]۔ 3۔ سورہ العنکبوت کی آیت 10 کی تفسیر بھی واضح ہوئی جس میں کمزور ایمان والوں کا ذکر ہے۔ 4۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کبھی قوی اور کبھی کمزور ہوتا رہتا ہے۔ 5۔ ایمان کی کمزوری کی تین علامات بھی بیان ہوئی ہیں۔ 6۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اسی کاخوف کھانا ایک دینی و شرعی فریضہ ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کا خوف، اور خشیت رکھنے والوں کے لیے ثواب کا علم بھی ہوگیا۔ 8۔ اللہ تعالیٰ کا خوف ترک کرنے والے کے انجام کا بیان۔ اس باب کی شرح: باب: بیشک یہ شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے [حقیقت میں یہ باب اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کے بارے میں ہے] یہ باب مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بتانے کے لیے قائم کیا ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ سے خوف و خشیت کا تعلق رکھنا واجب ہے؛ اور مخلوق سے ایسا تعلق رکھنا منع ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ اس کے بغیر توحید مکمل نہیں ہوتی۔ یہاں پر تھوڑی تفصیل بیان کرنا ضروری ہے تاکہ معاملہ صاف واضح ہو جائے ؛ اور اشکالات ختم ہو جائیں۔
[1] اللہ تعالیٰ بلاشبہ اپنے بندوں کی کفالت کرتاہے۔ جو شخص یہ خیال کرے کہ سب لوگ اس سے راضی اور خوش ہوجائیں تو یہ ناممکن بات ہے۔ لوگ اس وقت تک خوش رہیں گے جب تک ان کی اغراض پوری ہوتی رہیں گی۔ لیکن جب لوگوں کو انجام کا پتا چلے گا کہ: ’’جو اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے تو وہ اللہ کے مقابل اس کے کسی کام نہ آئیں گے۔‘‘ تو اپنے ہی ہاتھوں کو کاٹیں گے، جیسے ظالم کی طرح جو اپنے ہی ہاتھوں کو کاٹتاہے۔ جو شخص اس دارِفانی میں لوگوں کی بے حد تعریف کرتا ہے وہی آخرت میں ان کی مذمت کرے گا۔ آخرت تو متقین کے لئے ہی مخصوص ہے یہ عام لوگوں کی خواہش کے مطابق ابتدا میں کیسے میسرآسکتی ہے؟ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’جس شخص پر اس بات کی حقیقت کا انکشاف ہو جائے کہ زمین پر جتنی بھی مخلوق الٰہی ہے وہ سب مٹی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی تو وہ شخص مٹی کی اطاعت کو رب الارباب کی اطاعت پر کیسے ترجیح دے سکتاہے؟ یا ملک الاملاک اور اللہ کی ذات کو ناراض کرکے مٹی کو کیسے خوش کرنے کی کوشش کرے گا؟ اگر کسی بدنصیب نے ایسا کردار اداکیاتو ’’یہ تو بڑی عجیب بات ہو گی۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو شخص لوگوں سے خوف کھاکر اللہ تعالیٰ کی رضا پر لوگوں کی خوشی کو ترجیح دے گا اسے سخت ترین سزا سے دو چار ہونا پڑے گا۔ خصوصاً شریعت اسلامیہ کے مطابق جو سزا ملے گی اس کی سختی کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس سزا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔