کتاب: نور توحید - صفحہ 138
نیز ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَائِ ذَآ أُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰهِ﴾(العنکبوت: ۱۰)
’’ لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا‘‘[1]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّ مِنْ ضَعْفِ الْیَقِیْنِ أَنْ تُرْضِیَ النَّاسَ بِسَخَطِ اللّٰهِ وَأَنْ تَحْمَدَھُمْ عَلٰی رِزْقِ اللّٰهِ۔وَ أَنْ تَذُمَّھُمْ عَلٰی مَا لَمْ یُؤْتِکَ اللّٰهُ اِنْ رَزَقَ اللّٰهُ لَا یَجُرُّہٗ حِرْصُ حَرِیْصٍ وَ لَا یَرُدُّہٗ کَرَاِھیَہُ کَارِہٍ۔))[2]
’’بلاشبہ یہ(ایمان اور اللہ پر) یقین کی کمزوری کی علامات ہیں کہ تو اللہ کی ناراضی مول لے کر لوگوں کو خوش کرے۔ اور اللہ نے جو رزق لوگوں کو دے رکھا ہے اس پر تو ان کی مدح و ستائش کرے اور جو رزق اللہ تعالیٰ نے(لوگوں کو دیا ہے لیکن)تجھے نہیں دیا؛ اس کی وجہ سے لوگوں کی مذمت کرے۔ یاد رکھو، کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کو نہ کسی حریص کی حرص لاسکتی ہے اور نہ کسی ناپسند کرنے والے کی ناپسندیدگی اسے روک سکتی ہے۔‘‘[3]
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰهِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْہُ وَ أَرْضٰی عَنْہُ النَّاسُ ـ وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰهِ سَخَطَ اللّٰهُ عَلَیْہِ وَ أَسْخَطَ عَلَیْہِ النَّاسُ)) [4]
’’جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی رکھے، اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے؛ اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کی رضا کا طالب ہو، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوجاتا
[1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ایسے افراد کو جب معمولی سی محنت و مشقت سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ ارتداد کے فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس جھٹلانے والی قوم کی صفات بیان کی ہیں جو صرف زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ان کے دل ایمان کی دولت سے بالکل خالی ہیں۔ دنیا میں جب ایسے لوگ مصائب و مشکلات اور محنت و مشقت میں پڑجاتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان پراللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہواہے۔ چنانچہ یہ لوگ مُرتد ہوجاتے ہیں۔‘‘
[2] (شعب الایمان، الخامس من شعب الایمان، وھو باب فی ان القدر ....، ح:207))
[3] مذکورہ اعمال ، ایمان کی کمزوری کے اسباب اور علامات ہیں ؛ جو کہ حرام امور ہیں ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت سے ایمان بڑھتا اور نافرمانی اور معصیب سے کم ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنا، معصیب ، گناہ اور حرام ہے۔کیونکہ جو چیز تو ان سے طلب کرتا ہے وہ تیرے لئے مقدر نہیں ہے۔ جو چیز تم نے کسی سے مانگی تھی اگر وہ تیرے مقدر میں ہوتی تو تجھے ضرور مل جاتی۔ پس جو شخص یہ سمجھ لے کہ: ۱۔رزق دینے والا۔ ۲۔رزق میں تنگی کرنے والا۔ ۳۔ اسباب اور بغیر اسباب کے رزق مہیا کرنے والا۔ اور بعض اوقات ایسی جگہ سے رزق عطا فرمانے والا جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو، صرف اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے، تو ایسا شخص کسی کی نہ تعریف کرے گا اور نہ مذمت بلکہ اپنے دین و دنیا کے تمام اُمور صرف اللہ تعالیٰ کو سونپ دے گا۔ اسی پر اعتماد کرلے گا۔ اسی مفہوم کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
[4] (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، ح:1541 1542 و جامع الترمذی، ح:2414 ولہ الفاظ اخری)