کتاب: نور توحید - صفحہ 137
باب:قولہ تعَالیٰ: اِنَّمَا ذَالِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَ ہٗ… باب: بیشک یہ شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے… [اللہ تعالیٰ کے خوف کا بیان] [1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَائَ ہٗ فَلاَ تَخَافُوْھُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾[اٰل عمران ۱۷۵] ’’ بیشک وہ در اصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا۔ لہٰذا تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ِ ایمان ہو‘‘[2] نیز ارشاد ربانی ہے: ﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الأٰخِرِ وَ أَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ أٰتَی الزَّکوٰۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلاَّ اللّٰهَ فَعَسٰیٓ أُولٰٓئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ﴾(التوبۃ: ۱۸) ’’بیشک اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکواۃ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یقینا ایسے لوگ ہی ہدایت پانے والوں میں سے ہیں۔‘‘
[1] اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف بھی عبادت ہے۔ اس کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ اس عبادت کی تکمیل سے توحید کی تکمیل اور اس میں کمی سے توحید میں نقص اور کمی واقع ہو جاتی ہے۔ غیر اللہ کا خوف بعض صورتوں میں شرک ، بعض میں حرام اور بعض صورتوں میں مباح ہوتا ہے۔ اول:کسی نبی، ولی یا جنّ سے اس انداز سے ڈرنا کہ وہ انسان کو[اسباب سے بالا تر]نقصان پہنچادے گا؛ یا یہ سمجھنا کہ فلاں نبی، ولی یا جن کی تعظیم کی جائے تو وہ آخرت میں میرے کام آئے گا۔ اور اگر وہ ناراض ہو گیا تو آخرت میں میرے کام نہ آئیگا، سفارش کرے گا نہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو مجھ سے دور کرے گا...کسی سے اس قسم کاخوف کھانا شرک ہے۔ دوم: مخلوق کے ڈرسے اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کی خلاف ورزی کرنا ، اس قسم کا خوف رکھنا حرام ہے۔ سوم: طبعی خوف ہے۔ مثلا انسان کا اپنے کسی دشمن سے ، درندوں سے، یا آگ وغیرہ سے خوف کھانا طبعی اور فطری ہے۔ اس پر کوئی گناہ یا مواخذہ نہیں۔ [2] اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بسا اوقات شیطان، اہل توحید کے دلوں میں ان کے دشمنوں کا خوف پیدا کرڈالتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا:’’ان سے ہرگز نہ ڈرنا‘‘یعنی ان سے ڈرناحرام ہے کیونکہ اس قسم کا خوف عبادت کے زمرے میں آتا ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے گویا اللہ تعالیٰ نے شرک ہی کی ایک قسم سے منع فرمایا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں محض اللہ کی خشیت ہونی چاہئے کیونکہ اللہ نے ان لوگوں کی مدح و تعریف اسی لیے کی ہے کہ ان کے دل میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کی خشیت پیدا نہیں ہوتی۔