کتاب: نور توحید - صفحہ 133
((لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَ وَالِدِہٖ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔))[1]
تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک(کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھے اپنی اولاد،(ماں) باپ اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فَیْہِ وَجَدَ بِہِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ۔ أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوِاھُمَا وَ أَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ۔ وَ أَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰهُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُّقْذَفَ فِی النَّارِ)) [2]
’’ تین اوصاف جس آدمی میں ہوں وہ ان کی بدولت ایمان کی مٹھاس پالیتا ہے:
1۔ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو سب سے زیادہ محبوب سمجھے۔ 2۔ کسی سے محبت کرے تو محض اللہ تعالیٰ کے لیے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر سے بچالیا تو اب وہ کفر پر لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالا جانا اسے ناپسند ہے۔‘‘
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
((لَا یَجِدُ أَحَدٌ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانَ حَتّٰی یُحِبُّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ....)) [3]
[1] (صحیح البخاری؛ کتاب الاِیمانِ, باب: حب الرسولِ صلی اللہ علیہ وسلم مِن کتاب الإِیمانِِ, ح:15 وصحیح مسلم کِتاب الاِیمان, باب وجوبِ محبۃِ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم أکثر مِن الأہلِ والولدِ، والوالِدِ والناسِ أجمعِین, ح:44)
ایمانِ کامل یہ ہے کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی اولاد، اپنے ماں باپ، حتی کہ تمام دنیا سے زیادہ محبت ہو۔یہ کمال کا یہ درجہ تب ہی حاصل ہوگاجب انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہو۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مجھے اپنی جان کے علاوہ تمام دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک تم مومن نہیں ہو سکتے۔توحضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ٹھیک ہے۔‘‘ زیر بحث حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان کا جزوِ لاینفک ہیں کیونکہ محبت دل کا عمل ہے۔ اور دُوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فرض اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کا لازمی حصہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر اور اُس کے حکم کے مطابق کی جاتی ہے ایک مومن صادق کے دل میں جس قدر محبت الٰہی کی کثرت ہو گی اسی لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی زیادہ ہو گی۔
[2] (صحیح البخاری, ِکتاب الإِیمانِِ, باب حلاوِۃ الإِیمانِِ, ح:16, 21, 6941 وصحیح مسلم, ِکتاب الإِیمانِ, باب بیانِ خِصال منِ اتصف بِہِن وجد حلاوۃ الإِیمانِِ, ح:43)
[3] (صحیح البخاری, ِکتاب الأدبِ, باب الحبِ فِی اللہِ, ح:6041)
حلاوت سے وہ دِلی کیفیت مراد ہے جو کسی نعمت اور خوشی کے موقع پر دِل پر طاری ہوتی ہے؛ یہ ذوق مومن اپنے قلوب میں ہمہ وقت محسوس کرتے ہیں۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اطاعت الٰہی کے وقت، مصائب جھیلتے وقت، دُنیوی اغراض کو پس پشت ڈال کر، اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اور اُس کی مخالفت سے رُک کر، جو کیفیت اور سُرور ایک مومن کے دِل میں اُبھرتا ہے، اُس ذوق کو حلاوتِ ایمان سے تعبیر کی اگیا ہے۔رہی وہ محبت جو طبعاً اور فطرتاً ایک انسان اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے کرتا ہے، یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کے برابر نہ ہو بلکہ کمتر ہو۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حلاوتِ ایمانی اس فرحت و مسرت اور لذت کو متضمن ہے جو اللہ تعالیٰ کی کامل محبت کے بعد حاصل ہوتی ہے اور کامل محبت تین اُمور کے پائے جانے سے میسر آتی ہے: ۱۔ محبت میں کمال۔ ۲۔محبت میں خلوص۔ ۳۔ اور محبت کے منافی اُمور سے دوری۔