کتاب: نور توحید - صفحہ 129
1۔ حسب و نسب اورخاندانی شرف و فضیلت پر فخر کرنا۔[1] 2۔ دوسروں کے نسب اور خاندان میں نقص اور عیب نکالنا اور طعنہ زنی کرنا۔ 3۔ ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھنا۔[2] 4۔ نوحہ کرنا ‘‘[3] نیز آپ نے فرمایا:’’ نوحہ کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے پہلے توبہ نہ کرے توقیامت کے دن اسے گندھک کی شلوار اور خارش کی قمیص پہناکر اٹھایا جائیگا۔‘‘ حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (صَلّٰی لَناَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم صَلٰوۃَ الّصُبْحِ بِالْحُدَیْبِیَّۃِ عَلٰی إِثَرِسَمَآئٍ کَانَتْ مِنَ اللّیْلِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ ؛ فَقَالَ: ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟۔قَالُوْا اَللّٰهُ وَ رَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ۔ قَالَ: قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنٌ بِیْ وَ کَافِرٌ۔ فَأَمّاَ مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ رَحْمَتِہٖ‘‘ فَذٰلِکَ مُؤمِنٌ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوَاِبِ۔ وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا‘‘ فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ۔))[مسلم,ِکتاب الإِیمان, باب بیانِ کفرِ من قال: مطِرنا بِالنوائِ, ح:71)] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر رات بارش ہونے کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ آپ نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایاہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول
[1] اپنے آباء و اجداد اور ان کے کارناموں کی وجہ سے لوگوں پر اظہارِ فخر کرنا، یہ جہالت اور دیوانگی کی علامت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت و شرف کے حصول کا تعلق صرف تقوی اور پرہیزگاری سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾(الحجرات:۱۳) ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَ مَآ اَمْوَالُکُمْ وَ لَآ اَوْلَادُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ جَزَآئُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ ھُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ﴾(سبا:۳۷)۔ ’’یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو، ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، یہی لوگ ہیں جن کے لئے اُن کے عمل کا دُہرا بدلہ ہے اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے۔‘‘ سنن ابی داؤد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی حماقت اور آباء و اجداد کا فخر دُور کر دیا ہے اب یا تو متقی مومن ہو گا یا فاجر و فاسق، سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی۔ اب لوگوں کو قومی فخر و مباہات کو ترک کر دینا چاہیے کیونکہ وہ جہنم کے کوئلے بن چکے ہیں یا پھر وہ اللہ کے نزدیک گندگی کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے۔‘‘ [2] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:حضرت جابرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’مجھے اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں سے خطرہ ہے: ۱۔ستاروں کے ذریعے سے بارش طلب کرنا۔ ۲۔بادشاہ کا ظلم۔ ۳۔ اور قضا و قدر کی تکذیب۔‘‘ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’ہمیں فلاں منزل یا فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش ملی) تو وہ دو حال سے خالی نہیں: ایک یہ کہ کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ بارش برسنے میں ستاروں کو بہت بڑا دخل اور اثر حاصل ہے۔ پس یہ عقیدہ کفر اور شرک کا ہے۔ دوسرے یہ کہ ’’مُطِرنَا کَذَا وَ کَذَا‘‘ (ہمیں اس اس طرح بارش ملی)وغیرہ کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی موثر اور بارش برسانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن یونہی بربنائے عادت اور لوگوں کی دیکھا دیکھی اس نے یہ جملہ کہہ دیا۔تو اس کی تصریح کی ہے کہ ’’مُطِرنَا کَذَا وَ کَذَا‘‘ (ہمیں اس اس طرح بارش ملی) کہنا حرام ہے۔ [3] کسی کے فوت ہونے پر بین کرنے کو النیاحۃ کہتے ہیں کیونکہ بین کرنے والا اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر ناراض ہو کر ہی بین کرتاہے۔ بین کرنا صبر کے سراسر خلاف ہے اور شریعت اسلامیہ میں کبیرہ گناہ شمار ہوتا ہے جس پر سخت وعید آتی ہے اور اس کی تردید میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں موجود ہیں۔کسی مصیبت و پریشانی کے موقع پر چیخ پکار کرنا اور کپڑے پھاڑنا اور زور زور سے رونا پیٹنا، یہ بھی صبر کے منافی اور جاہلیت کا کام ہے۔