کتاب: نور توحید - صفحہ 128
بابُ: مَاجَآء فِی الْإِسْتِسْقَائِ بِالْأنْوَائِ باب: ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کے عقیدہ کا بیان[1] اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ﴾(سورۃ الواقعہ) ’’ اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو۔‘‘ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَرْبَعٌ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یَتْرُکُوْنَھُنَّ: اَلْفَخْرُ بِالْأَحْسَابِ وَ الطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ وَالْائِ سْتِسْقَآئُ بِالنُّجُوْمِ وَ النِّیَاحَۃُ۔)) وَقَالَ:((أَلنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ عَلَیْھَا سِرْبَالٌ مِّنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِّنْ جَرَبٍ۔))[2] ’’ جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں میری امت کے لوگ ترک نہیں کریں گے:
[1] اس باب میں بارش کو ستاروں کی مختلف منزلوں کی طرف منسوب کرنے پر وعید کی گئی ہے ؛ کیونکہ اس قسم کا عقیدہ رکھنا خلافِ شرع ہے۔ چاند کی مختلف منزلوں کو انواء کہتے ہیں۔ ابوالسعادات رحمۃ اللہ علیہ نہایۃ میں فرماتے ہیں کہ: ’’چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں اور وہ ہر رات اپنے لئے ان منزلوں میں سے ایک منزل تبدیل کرتا ہے۔‘‘ چاند کی مختلف منزلوں کو قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے فرمان الٰہی ہے:﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیمِ ﴾[یس] ’’اورچاند، اس کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں ‘ حتی کہ وہ دوبارہ پرانی ٹیڑھی ڈنڈی کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘ عربوں کا عقیدہ تھا کہ جب چاند ایک منزل سے غروب کے بعد اس کے بالمقابل منزل سے طلوع ہوتا ہے تو اس وقت بارش ہوتی ہے اور اس بارش کو وہ اس منزل کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ ہمیں چاند کی فلاں منزل کے رحم و کرم کی وجہ سے بارش ملی اور اس کا نام نو رکھا گیا ہے کیونکہ جب چاند مغرب میں جا کر گرتا ہے تو وہ مشرقی مطلع سے دُور ہو جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔تو پھر توحید کا تقاضا ہے کہ ان کی نسبت بھی اسی کی طرف ہونی چاہئے۔ بارش بھی اسی کی نعمت ہے جو اسی کے حکم سے برستی ہے۔ بارش کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ ستاروں یا کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا زیادتی اور توحید کے منافی ہے، اس لیے کہ یہ تارے نزول بارش کے اسباب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بارش کے نزول کا سبب نہیں بنایا لہذا انہیں بارش کا سبب اور ذریعہ سمجھنا انتہائی غلط ہے۔ اسی طرح بارش اور دیگر نعمتوں کو ان کے حقیقی خالق و موجد کی بجائے غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔ [2] [صحیح مسلم, الجنائز, باب التشدِیدِ فِی النِیاحِ ح:934 ومسند احمد 5ظ 342, 344)