کتاب: نور توحید - صفحہ 127
’’تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے: (1) عادی شراب خور(2) قطع رحمی کرنے والا(3) اور جادو کر برحق ماننے والا۔‘‘ اس باب کے مسائل 1۔ ستاروں کو تخلیق فرمانے سے متعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت معلوم ہوئی۔ 2 ۔ ان لوگوں پر رد ہے جو ان ستاروں سے کوئی اور دیگر علم اخذ کرتے ہیں۔ [1] 3۔ علم منازل قمر کے بارے میں اہل علم کی آرا مختلف ہیں۔ 3۔ مذکور حدیث میں جادو کی تصدیق کرنے پر وعید بھی بیان ہوئی ہے؛ اگرچہ وہ اس کے باطل ہونے کو جانتا بھی ہو۔
[1] جو لوگ ستاروں کی رفتار و حرکات ، ان کے ایک دوسرے سے قریب ہونے یا دور ہونے، یا ان کے طلوع و غروب سے، محض وقت اور زمانہ کا تعین کرتے ہیں۔وہ ستاروں کی ان حرکات کو کسی کام کے لیے سبب اور اثر قرار نہیں دیتے۔ محض اتنی سی بات کرنے اور اسی مقصد کے لیے ستاروں کا علم حاصل کرنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں بلکہ اس کی اجازت ہے۔‘‘ آج کل اخبارات و رسائل اور جرائد میں ستارے کیا کہتے ہیں ؟ کے عنوان سے عموماً مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ ان امور کی حقیقت پر غور نہیں کرتے۔ ستاروں اور برجوں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا یہی تو کہانت ہے۔ ہر علاقہ/اور ہر دور میں اورہر سطح پر اس کی تردید اور مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے رسائل گھروں میں نہ لائے جائیں ، نہ خود پڑھے جائیں نہ کسی کو دیئے جائیں کیونکہ ان ستاروں اور برجوں کا علم حاصل کرنا، اپنی ولادت کے برج کو جاننا اور اپنے موافق ستارے کی معلومات رکھنا ،اس کے متعلق تحریرات پڑھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی نجومی کے پاس جاکر اس سے احوال دریافت کیے جائیں۔ ایسی باتوں کو پڑھ کر ان کو درست سمجھنا اور ان کی تصدیق کرنا کفر ہے۔ والعیاذ باللہ: وہ علم نجوم جس سے تجربہ اور مشاہدہ کے بعد زوالِ شمس، اور جہت ِ قبلہ وغیرہ معلوم کی جاتی ہے اُس کا حاصل کرنا ممنوع نہیں کیونکہ یہ اس سے زیادہ نہیں کہ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ جب تک سایہ کم ہوتا رہے گا تو سورج مشرقی کنارہ سے وسط آسمان کی طرف بڑھتا جائے گا اور جب سایہ زیادہ ہونے لگے گا تو وسط آسمان سے سورج مغربی کنارہ کی طرف گرنا شروع ہو جائے گا اور یہ ایک صحیح علم ہے جس کا ادراک مشاہدہ سے ہوتا ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس فن کے جاننے والوں نے ایسے آلات ایجاد کر لئے ہیں جن کی وجہ سے آدمی سورج کی رفتار کا ہر وقت معائنہ کرنے کا محتاج نہیں رہا (مثلاً گھڑیاں وغیرہ)۔