کتاب: نور توحید - صفحہ 125
ہو۔ یہ اگرچہ پہلے کام کی نسبت کم درجہ کا ہے؛ لیکن اس کا برائی اورنقصان کے اثرات انسان پر پائے جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے دل میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور توکل میں کمی آتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شارع علیہ السلام نے پرندوں سے فال پکڑنے/بدشگونی لینے سے کیوں منع فرمایا؟؛ اور اس عمل کی مذمت کیوں کی ؟۔ اوریہ عمل کیوں اور کیسے توحید اور توکل کے منافی ہے؟۔
جس کسی کے دل میں کوئی ایسا خیال آئے ؛ اور اسے یہ خوف محسوس ہو کہ کہیں طبیعت بشری کے تقاضے اس پر غالب نہ آجائیں ؛ تو اس انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرے؛ اوراس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے؛اور کسی طرح بھی اس کی طرف مائل ہونے کے لیے اپنے دل میں کمزوری نہ آنے دے ؛ تاکہ اس کی برائی کو اس سے دور کیا جاسکے۔ [1]
[1] ابو السعادات رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ ’’فال خوشی، اور تکلیف دونوں حالتوں پر بولا جاتا ہے۔ البتہ طیرۃ تکلیف دہ حالت کے لئے خاص ہے۔ بعض اوقات خوشی کی حالت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال کو اس لئے پسند فرمایا ہے کہ جب لوگ اللہ کی طرف سے کسی فائدہ کی اُمید کریں گے اور کسی اچھے نتیجے کی توقع رکھیں گے تو ان کے حصول کے لئے خواہ سبب ہلکا پھلکا ہو یا بہت بڑا دونوں صورتوں میں خیر ہی ہو گی۔ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمیدیں اور آرزوئیں ختم کر لیں گے تو سوائے مصائب کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ لیکن تطیر یعنی بدشگونی میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے بدگمانی اور مصائب کی توقع کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ تفاؤل کی صورت یہ ہے کہ جب مریض کسی کو یہ کہتا ہوا سنے کہ یا سالم! تو مریض کے دل میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اب میں بہت جلد صحت یاب ہو جاؤں گا۔ یا کوئی شخص اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کر رہا ہو اور وہ کسی کو یہ کہتا ہوا سنے کہ یا واجد! تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ میری چیز مجھے ضرور مل جائے گی۔ مندرجہ ذیل حدیث اس کی تائید کرتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فال کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات کو فال کہتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ مجھے فال بہت اچھی لگتی ہے جس سے ثابت ہوا کہ فال اور چیز ہے اور طیرہ جس کی ممانعت کی گئی ہے، اور چیز ہے۔