کتاب: نور توحید - صفحہ 122
اور بخاری اور مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا عَدْوٰی وَ لَا طِیَرَۃَ وَ یُعْجِبُنِی الْفَالُ۔)) قَالُوْا: وَ مَا الْفَالُ؟ قَالَ:((اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ۔))[1]
’’کوئی بیماری متعدی نہیں۔ نہ بدفالی و بدشگونی کی کچھ حقیقت ہے البتہ مجھے فال پسند ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی: فال سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: عمدہ اور بہترین بات(سن کر حسن انجام کی امید رکھنا)۔‘‘
سنن ابی داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ آپ نے فرمایا:
((ذُکِرَتِ الطِّیَرَۃُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم فَقَالَ:((أَحْسَنُھَا الْفَآلُ ؛ وَ لَا تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَاٰی أَحَدُکُمْ مَا یَکْرَہُ فَلْیَقُلْ:((اَللّٰھُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنٰاتِ اِلَّا أَنْتَ وَ لَا یَدْفَعُ السَّیِّأٰتِ إِلَّا أَنْتَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ۔))[2]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدفالی اور بدشگونی[3] کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ان سب سے بہتر فال ہے اور یہ کسی مسلمان کو اس کے مقصودسے روک نہ دے۔ چنانچہ جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے تو یہ دعا کرے:
’’یا اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں لا سکتا ہے نہ کوئی برائیوں کو دور کرسکتاہے۔ اور تیری توفیق کے بغیر ہم میں بھلائی کی طاقت ہے نہ برائی سے بچنے کی ہمت۔‘‘
اور ابو داؤد میں ہی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا …۔وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ یُذْھِبُہٗ بِالتَّوَکُّلِ۔))[4]
’’بدفالی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے(بتقاضائے بشریت)ایسا وہم نہ ہوتا ہو … مگر اللہ رب العزت توکل کی وجہ سے اس کو رفع فرمادیتا ہے۔‘‘
[1] (صحیح البخاری، الطب، باب لا عدوی، ح: 5776 و مسلم، السلام، باب الطیرۃ والفال ح:2224)
نیک شگونی میں اللہ تعالیٰ پر حسن ظن ہوتا ہے جبکہ بدفالی میں اللہ تعالیٰ پر بدگمانی کی جاتی ہے۔ اس لیے فال یعنی نیک شگونی ممدوح ہے اور بدفالی مذموم۔
[2] (سنن ابی داود، الکھان و التطیر، باب فی الطیر، ح:3919)۔
[3] الطیرۃ[بدشگونی و بدفالی] لفظ عام ہے۔ اس لفظ میں وہ تمام اقوال اور اعمال شامل ہیں جن سے بدشگونی لی جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں بدشگونی کی ممانعت اور نیک فال کی طرف رہنمائی ہے۔ کیونکہ نیک فالی سے انسان کا دل فراخ رہتا اور شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی دلی تنگی دور ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان اپنے دل میں نیک فالی پیدا کرلیتا ہے تو پھر شیطان کے وسوسے اس کے دل پر کوئی اثر نہیں کرسکتے۔
حلیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فال کو اس لئے پسند فرمایا کہ نحوست بری چیز تھی، جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے متعلق بلا سبب بدگمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ البتہ نیک فال سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے؛ اس لئے انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھے۔‘‘
مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس شخص کو فالِ بد اپنے کام سے روک دے اس نے شرک کیا۔‘‘صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی: اس کا کفارہ کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا دعا سکھائی۔
[4] (سنن ابی داود، الکھان والطیرۃ، باب فی التطیر، ح:3910 و جامع الترمذی، السیر، باب ما جا فی الطیرۃ، ح:1614)وصححہ الترمذي۔وجعل آخرہ من قول ابن مسعود۔
بدشگونی و بدفالی لینا شرک اصغر ہے۔ بسا اورقات ایک مسلمان و موحد آدمی کے دل میں بھی بدشگونی کا وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بعید ازامکان نہیں۔ لیکن چونکہ بندہ مومن کا اللہ پر توکل اور بھروسہ ہوتا ہے اس لیے اسی توکل کی بنا پر اللہ عزوجل اس وسواس کو دور کردیتے ہیں۔