کتاب: نور توحید - صفحہ 121
باب: مَا جآ ئَ فِی التَّطَیُّرِ باب: بد فالی کے بیان میں [اس باب میں شگون او رفال کے بارے میں شریعت کے احکام بیان کیے گئے ہیں اور اس کو کسی قطعی فیصلے پر پہنچنے کا ذریعہ قرار دینے سے روکا گیا ہے]۔ [1] اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿اَلَآاِنَّمَا طٰئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ ٰلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔﴾[الاعراف 131] ’’خبردار!ان کی بدشگونی(نحوست)اللہ کے ہاں مقدر ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾[یس19] ’’وہ بولے: تمہاری نحوست تمہارے ہی ساتھ ہے۔ کیا تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟ بلکہ تم لوگ حد سے تجاوز کرچکے ہو۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا عدوۃ ولا طِیرۃ، ولا ہام ولا صفر۔))[2] ’’کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا(کوئی برا اثر رکھتا)ہے اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے۔‘‘ صحیح مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے:’’ ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ بھی بے اصل ہے اور بھوتوں کا بھی کوئی وجود نہیں۔‘‘
[1] کسی جانو یا پرندے یا اس کی کسی حرکت کو دیکھ کر اپنی کامیابی یا ناکامی پر بدفالی اور بدشگونی لینا یہ بھی توحید کے منافی اور شرک ہے۔ انہیں کوئی فائدہ یا نقصان پہنچنا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے۔ کوئی چیز ان کے لیے برا یا نیک شگون نہیں رکھتی۔ جانوروں سے بدفالی اور بدشگونی لینا انبیا و رسل کے دشمن مشرکین کی مذموم عادت ہے۔ اہل ایمان اپنے تمام امور کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ [2] (صحیح البخاری، الطب، باب لاھام، ح:5757 و صحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیر ولا ھام ولا صفر، ولا نو ولا غول، ح:2220) کوئی بیماری ازخود متعدی نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی بیماری کا اثر دوسرے تک پہنچتا ہے تو محض اللہ عزوجل کے اذن اور حکم ہی سے۔ دورجاہلیت میں لوگوں کا یہی اعتقاد تھا کہ بیماری طبعی طور پر خود اثر انداز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا۔ اسی طرح بدفالی اور بد شگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک دلی وہم ہوتا ہے ورنہ اللہ کی قضا اور تقدیر میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔