کتاب: نور توحید - صفحہ 118
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
((فِیْ قَوْمٍ یَکْتُبُوْنَ أَبَاجَادٍ وَ یَنْظُرُوْنَ فِي النُّجُوُمِ مَآ أَریٰ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ لَہٗ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ خَلَاقٍ))
’’جو لوگ حروف ابجد لکھ کر حساب کرتے اور نجوم(ستاروں)سے رہنمائی لیتے ہیں میرے خیال میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔‘‘
اس باب کے مسائل
1۔ یہ معلوم ہوا کہ قرآن پر ایمان اور کاہنوں کی تصدیق یہ دونوں باہم متضاد ہیں، اس لیے یہ ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔
2۔ یہ صراحت بھی ہے کہ کاہن کی تصدیق کرنا کفر ہے۔
3۔ کہانت کروانے والے کا بیان۔
4۔ فال نکلوانے والے کا بیان۔
5۔ اور جادو کروانے والے کا حکم بھی معلوم ہوگیا[کہ وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہیں]۔
6۔ علم ابجد کی مذمت بھی بیان ہوئی ہے۔
7۔ کاہن اور عراف کے مابین فرق کی وضاحت کی گئی ہے۔
اس باب کی شرح:
باب: کاہنوں اور دیگر لوگوں کا بیان
کاہن وہ ہے جو کسی بھی طرح سے علم غیب جاننے کا دعوی کرتا ہو۔ اس لیے کہ غیب کا علم جاننے میں اللہ تعالیٰ منفرد ہیں۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس علم میں شریک ہونے کا دعوی کرے؛ خواہ وہ کہانت سے ہو؛ یا ہاتھ کی لکیریں وغیرہ دیکھ کر ؛ یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے؛ یا جو کوئی ایسے کسی دعوی کی تصدیق کرے؛ تو یقیناً وہ اس چیز میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خاص حق ہے۔ اور وہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو جھٹلاتا ہے۔
اور بہت سارے وہ کاہن جن کا تعلق اور رابطہ شیاطین سے ہوتا ہے؛ ان کی حرکات کسی بھی طرح شرک سے خالی نہیں ہوتی۔ وہ ان واسطوں کی قربت حاصل کرتے ہیں جن سے وہ علم غیب کے دعوی کو سچ ثابت کرنے کے لیے مدد حاصل کرسکیں۔ پس یہ کام ایک تو اس اعتبار سے شرک ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص علم میں اس کا شریک ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا اس لیے کہ اس میں غیر اللہ کی قربت حاصل کی جاتی ہے۔
اس میں درحقیقت شارع علیہ السلام نے مخلوق کو ان خرافات سے دور رکھا ہے جن کی وجہ سے عقول میں اور ادیان میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔