کتاب: نور توحید - صفحہ 117
((من أتی عرافاً کاہِناً فصدقہ بِما یقول فقد کفر بِما أُنزِلَ علی محمد صلی اللّٰهُ علیہ وسلم۔))[1] ’’جس نے کسی نجومی یا کاہن کے پاس جاکر اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیاہے۔‘‘ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لِیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطُیِّرَلَہٗ أَوتَکَہَّنَ أَوْ تُکُہِّنَ لَہٗ ؛ أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَلَہٗ وَمَنْ أَتٰی کَاھِنًا فَصَدَّقَہٗ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَآ أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم۔))[2] ’’ جو شخص خود فال نکالے یا اس کے لئے فال نکالی جائے یا خود کاہن بنے یا اس کے لئے کاہن تجویز کرے یا جو شخص خود جادوگر ہو یا اس کے لئے جادو کیا جائے؛ وہ ہم میں سے نہیں۔اور جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے شریعت محمدیہ سے کفر کا ارتکاب کیا ‘‘[3] اس حدیث کو بزار نے بسند جید روایت کیا ہے۔ جبکہ یہی حدیث، امام الطبرانی نے المعجم الاوسط میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ اس میں من اتی کاھنا سے آخر تک کے الفاظ نہیں ہیں۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((اَلْعَرَّافُ الَّذِی یَدَّعِیْ مَعْرِفَۃَ الْاُمُوْرِ بِمُقَدَّمَاتٍ یُّسْتَدَلَّ بَھَا عَلَی الْمَسْرُوْقِ وَمَکَانَ الضَّآلَّۃَ وَ نَحْوِ ذٰلِکَ۔)) ’’ عراف وہ ہے جو علامات کی روشنی میں چوری شدہ یا گم شدہ چیز کی نشان دہی یا اسی طرح کے دوسرے امور کی معرفت کا دعوی کرے۔‘‘ بعض اہل علم فرماتے ہیں:’’ عراف اور کاہن ایک ہی ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو مستقبل میں رونما ہونے والے امور کی خبر دیتا ہے۔ بعض نے کہا کہ:’’ جو دل کی بات بتائے وہ کاہن کہلاتا ہے۔‘‘ ابو العباس ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عراف ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق کاہن، نجومی، رمال[لیکریں کھینچنے والے]اور اس قسم کے تمام لوگوں پر ہوتا ہے۔ جو اپنے اپنے طریقوں سے بعض امور و واقعات کی خبر دیتے ہیں ‘‘[4]
[1] (مسند احمد: 2/ 429، و المستدرک للحاکم:1/ 8 و سنن الکبری للبیھقی:8/ 135) [2] (مسند البزار، ح:3044 ؛ سند جید؛ و مجمع الزوائد، الطب، باب فی السحر و الکھان ...،ح:8480) [3] مذکورہ تمام اعمال حرام ہیں اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ اعمال کبیرہ گناہوں میں ہیں۔ کاہن کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کے متعلق نبی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:’’ اس نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کیا۔‘‘ کیونکہ کاہن کی تصدیق کرنے سے شرک اکبر میں اس کاتعاون پایاجاتا ہے۔ یہ تو اس شخص کے بارے میں وعید ہے جو کاہن کے پاس جاکر اس سے کچھ دریافت کرے۔ رہا خود کاہن؛ تو اس کے متعلق ذکر کیا جاچکاہے کہ وہ شرک اکبر کامرتکب ہوتا ہے۔ [4] فتاوی ابن تیمیہ:173/35 کاہن بات کرتے اور بتاتے وقت یوں اظہار کرتا ہے گویا وہ یہ باتیں اپنے علم کی بنیادپر کہہ رہا ہے۔ اس سے سامع دھوکا کھاجاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اسے یہ علم جنات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر کمزور عقیدہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہنوں کے پاس خصوصی علم اور فن ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں۔ اس لیے وہ مستقبل کے احوال سے واقف ہیں۔