کتاب: نور توحید - صفحہ 116
باب: ماجاء فی الکُھّان و نحوھم باب: کاہنوں اور دیگر لوگوں کا بیان٭ [اس باب میں کہانت اور غیب دانی کے بارے میں احکام شریعت کے وضاحت کی گئی ہے] صحیح مسلم میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے مروی ہے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہٗ عَنْ شَیْ ٍٔ فَصَدَّقَہٗ بِمَا یَقُوْلْ لَمْ تُقْبَلْ لَہٗ صَلٰوۃُ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا۔))[1] ’’ جو شخص کسی نجومی کے پاس گیا؛اور اس سے کسی چیزکا پوچھا اور اس کی بات کی تصدیق بھی کی تو اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہوگی۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من أتی کاہِنا فصدقہ بِما یقول فقد کفر بِما أُنزِلَ علی محمد صلی اللّٰهُ علیہ وسلم۔))[2] ’’جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا؛اور اس کی باتوں کی تصدیق کی ؛تو یقیناً اس نے اس کا کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا۔‘‘[اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے] سنن اربعہ اور مستدرک حاکم میں روایت ہے: جسے امام حاکم نے امام بخاری او رامام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح کہا ہے؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ___________________________________ ٭کہانت یعنی غیب کی خبریں جاننے کا دعوی کرنا اور لوگوں کو غیب کی خبریں دینا توحید کے منافی ہے۔کاہن درحقیقت مشرک ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جنات کی عبادت کرکے، ان کا تقرب اور خوشنودی حاصل کر کے ان کی خدمات حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اسے بعض پوشیدہ اور مخفی باتیں بتاجاتے ہیں۔ قبل از اسلام بنیادی طور پر کاہن وہ ہوتے تھے جن کے متعلق لوگوں کا اعتقاد ہوتا کہ وہ نیک اور اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں اور مستقبل میں، زمین پر یا کسی کے ساتھ جو امور پیش آنے والے ہیں وہ ان سے واقف ہیں۔ اس لیے لوگ ان کاہنوں سے ڈر کر ان کی خوب تعظیم کیا کرتے تھے۔
[1] (صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکھان و اتیان الکھان، ح:2230 دون قولہ فصدقہ فھو عند احمد فی المسند:3/ 68 ، 5/ 380)۔ نماز کی عدم مقبولیت کا مفہوم: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نجومیوں سے احوال دریافت کرنااور ان کی باتوں کو سچ جاننا اتنا بڑا جرم ہے کہ چالیس دن تک ایسے شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔یعنی وہ نماز ادا کرے تو اس کی طرف سے ادا تو ہو جائے گی؛اور اس پر ان نمازوں کی قضا بھی واجب نہیں گی؛ مگر اسے اس کا ثواب نہیں ملے گا۔ کیونکہ نجومی سے احوال دریافت کرنے کا گناہ چالیس دنوں کی نمازوں کے ثواب کے برابر ہے اور یہ گناہ اس ثواب کو مٹا ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجومی سے احوال دریافت کرنے والا اس کی باتوں کی تصدیق کرے یا نہ کرے ، وہ بہر صورت گناہ گار ہے۔ [2] (سنن ابی داود، الکھان والتطھیر، باب فی الکھان، ح:3904)۔