کتاب: نور توحید - صفحہ 113
باب: بیان شیٔ من انواع السحر
باب: جادو کی چند اقسام کا بیان[1]
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سیدنا مخارق رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((إِنَّ الْعِیَافَۃَ وَ الَّطرْقَ وَ الطِّیَرَۃَ مِنَ الْجِبْتِ۔))[2]
’’بیشک پرندوں کو اڑانا، زمین پر خطوط کھینچنا اور کسی کو دیکھ کر فالِ بدلینا، سب جادو کی اقسام ہیں۔‘‘
پرندوں کو اڑاکر فال لینا، زمین پر لکیریں کھینچنا(علم رمل)اور کسی چیز کو دیکھ کر بدفالی بدشگونی لینا، یہ سب جادو کی اقسام ہیں۔
عوف فرماتے ہیں: العِیافہ: سے مراد ہے پرندے اڑا کر فال لینا۔
والطرق:سے زمین پر لکیریں کھینچنا مراد ہے۔[یہ علم آج کل علم رمل کہلاتا ہے]۔
[1] لغوی طور پر جادو لفظ عام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ایسی چیزوں کو بھی جادو ہی کہا ہے جونہ حقیقی جادوہیں اور نہ ہی ان پر جادو والے حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے درجات مختلف ہیں۔ جادو کی ان اقسام میں فرق جاننا انتہائی ضروری ہے۔اسی تفریق کے لیے مصنف نے یہ باب قائم کیا ہے۔
جادوگر جب کسی شخص کو نشانہ بنانا چاہے تو دھاگہ لے کر اسے گرہ دیتے جاتے ہیں اور ہر گرہ پر کچھ نہ کچھ پڑھ کر پھونک مارتے جاتے ہیں۔ جس سے وہ اپنے اس قبیح عمل میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے اس گرہ دینے کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے۔
چغلی کو جادو اس لئے کہا گیا ہے کہ چغل خور بھی جادو گر کی طرح اپنی باتوں اور عمل سے مکر وحیلہ کر کے دوسرے کو اسی طرح اذیت اور تکلیف پہنچانا چاہتاہے اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ چغلی انتہائی اذیت رساں فعل ہے۔ بعض اوقات چغلی جادوسے بھی زیادہ سنگین اور اذیت رساں ثابت ہوتی ہے۔ البتہ جادوگر کو جادو کی وجہ سے کافر قرار دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ خاص فعل ہے۔لیکن چغل خور کو اس معنی میں جادوگر نہیں کہا جا سکتااور نہ ہی کافر قرار دیا جائے گا۔ کیونکہ اس کے لئے وہی حکم لگایا جائے گا جو کہ اس عمل یا اس کے اثر کے مطابق ہوگا۔ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’غیبت اور چغلی کی حرمت پر علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے البتہ خیر خواہی کے لئے غیبت جائز ہے۔ اور ان کے کبائر میں سے ہونے پر بھی حجت اور دلیل پائی گئی ہے۔‘‘
فصاحت و بلاغت: صعصعہ بن صوحان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ’’اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات مدعا علیہ اصل حق دار کی نسبت تیز کلام اور چرب زبان ہونے کی وجہ سے ، سامعین کو مسحور اور قائل کرکے دوسرے کا حق چھین لیتا ہے ‘‘۔
ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ بعض اہل علم نے اس بنا پر فصاحت کی مذمت کی ہے کیونکہ یہ جادو کی ایک قسم ہے اور جادو بذات خود مذموم ہے۔‘‘ اکثر اہل علم اور اہل ادب کی ایک جماعت نے فصاحت کی تاویل مدح سے کی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ بیان کی تعریف فرمائی ہے۔ ایک دفعہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک سائل آیا اور اس نے اپنے سوال کو انتہائی فصاحت و بلاغت سے پیش کیا ؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ واللہ یہ جادو ہے۔ لیکن حلال ہے ‘ ‘۔
بخاری و مسلم میں عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فصاحت و بلاغت میں بھی جادو کا اثرہوتاہے۔
[2] (سنن أبی داود، الکھان والتطیر، باب فی الخط وزجر الطیر، ح:3907)