کتاب: نور توحید - صفحہ 110
بابُ: مَا جَآئَ فِی السِّحر
باب: جادو کا بیان[1]
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ﴾(البقرۃ: ۱۰۲)
’’یقیناً وہ جانتے تھے؛ جو اس چیز کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی بابت فرمایا:
﴿یُؤْ مِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وِالطَّاغُوْتِ﴾[النساء 51]
’’ وہ جادو اور شیطان پر ایمان رکھتے تھے۔‘‘
امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ الجبت جادو اور الطاغوت شیطان ہے ‘‘[2]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ طاغوت وہ کاہن ہیں جن پر شیطان اتر تا تھا۔ اور ہر قبیلے کا الگ الگ کا ہن ہوتا تھا‘‘[3]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اجتنِبوا السبع الموبِقاتِ، قالوا: یا رسول اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم! وما ہن؟ قال: الشِرکُ بِاللّٰهِ، والسِحر، وقتل النفسِ التِی حرم اللّٰه ِإلا بِالحقِ، وأکل الرِبا، وأکل مالِ الیتِیمِ، والتولِی یوم الزحفِ، وقذف المحصناتِ المؤمِناتِ الغافِلاتِ۔))[4]
[1] جادو کی حقیقت: جادو میں کسی چیز کی تاثیر میں شیطان سے خدمت لی جاتی ہے۔ کوئی جادو گر جب تک شیطان کا دوست، مقرب اور محبوب نہ ہو، اس کا جادو کارگر نہیں ہوسکتا۔ جب وہ شیطان کا مقرب بن جاتا ہے تو شیاطین اس طرح اس کی خدمت کرتے ہیں کہ وہ مسحور(جس پر جادو کیا جائے اس )کے بدن پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ لہذا کوئی جادو گر شیاطین کے تقرب کے بغیر جادو گر نہیں بن سکتا۔ اسی لیے جادو کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کہا گیا ہے۔
[2] جادو گر توحید کے عوض جادو خریدتا ہے۔ گویا وہ توحید کو اپنے اس سودے(جادو)کی قیمت کے طور پر ادا کر ڈالتا ہے۔ اسی لیے توحید سے محروم مشرک کی طرح جادو گر کے لیے بھی آخرت میں کچھ نہیں ہوگا۔اہل کتاب کے جادو پر ایمان لانے کی بنا پر اس آیت میں ان کی مذمت کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کرکے ان پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔پس جادو حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک کیا جاتا ہے۔
[3] (اخرجہ الطبری فی التفسیر، برقم:5834؛ (اخرجہ ابن ابی حاتم فی التفسیر کما فی الدر المنثور: 2/ 22 ورواہ البخاری فی الصحیح معلقا، فتح الباری: 8/ 317))
[4] (صحیح البخاری، اوصایا، باب قولہ تعالیٰ (ِإن الذِین یأکلون أموال الیتامی ظلما)ح:2766، 5764 و صحیح مسلم، الایمان، باب الکبائر و اکبرھا، ح:89)۔