کتاب: نور توحید - صفحہ 106
﴿قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰهِ ط مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْت﴾[المائدۃ 60]
’’آپ فرما دیں، کیا تمھیں بتا دوں جن کا انجام اللہ کے ہاں اس سے بھی بدتر ہے ؟ وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر اللہ کا غضب ہوا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی‘‘[1]
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓی اَمْرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْہِمْ مَّسْجِدًا﴾[الکہف:21]
’’اور ان میں سے اپنی بات میں غالب آنے والے بولے: ہم تو ان کی غار پر ضرور مسجد(عبادت گاہ)بنائیں گے‘‘[2]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَذْوَ الْقُذَّۃَ بِالْقُذَّۃِ حََتّٰی لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمُوْہُ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ أَلْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی قَالَ فَمَنْ)) [3]
’’تم پہلی امتوں کے راستوں پر چلو گے؛ اوریوں ان کی برابری کرو گے جیسے تیر کا ایک پر دوسرے پر کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ضب(سانڈے)کے بل میں گھسے تو تم بھی جا گھسوگے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اور کون؟۔‘‘
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰهَ زَوٰی لِیَ الْأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَہَا وَ مَغَارِبَہَا۔ وَ إِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا۔ وَ اُعْطِیْتَ الْکَنْزَیْنِ أَلْأَحْمَرَ وَ الْأَبْیَضَ۔ وَ إِنِّیْ سَأَلْتُ رَبِّیْ لِاُمَّتِیْ أَنْ لَّا یُھْلِکَھَا بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ۔ وَ أَنْ لَّا یُسَلِِّطَ عَلَیْھِمْ عَدُوًّا مِّنْ سِوٰی أَنْفُسِھِمْ فَیَسْتَبِیْحُ بَیْضَتَھُمْ۔ وَإِنَّ رَبِّیْ قَالَ:((یَا مُحَمَّدُ إِذَا قَضَیْتُ قَضَآئً فَإِنَّہٗ لَا یُرَدُّ وَ إِنِّیْ أَعْطَیْتُکَ لِاُمَّتِکَ أَنْ لَّاأُھْلِکَہُمْ بِسَنَۃٍ عَامَّۃٍ وَ أَنْ لَّا اُسَلِّطُ عَلَیْھِمْ عَدُوًّا مِّنْ سِوٰی أَنْفُسِھِمْ فَیَسْتَبِیْحُ بَیْضَتُہُمْ وَ لَوْ إِجْتَمَعَ عَلَیْھِمْ بِأَقْطَارِھَا حَتّٰی یَکُوْنَ بَعْضُھُمْ یُھْلِکُ بَعْضًا وَ یُسْبِیْ بَعْضُھمْ بَعْضًا۔)) [4]
[1] بتوں کی پوجا، قبروں کی عبادت ، اصحاب قبور/ درگاہ اورمزار والوں کو معبود سمجھنا /یعنی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یہ سب طاغوت کی عبادت ہے۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امت محمدیہ کے بہت سے افراد قبروں ، آستانوں ، درختوں ، پتھروں وغیرہ کی عبادت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
[2] جیسے ان لوگوں نے صالحین کی تعظیم میں غلو کیا اور ان کی غار پر اور قبروں پر مسجد بنالی، یہ امت بھی ضرور ایسے کام کریگی کیونکہ سابقہ امتوں نے جو بھی شرکیہ خصلت اختیار کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق یہ امت اس کو ضرور اختیار کریگی۔
[3] (صحیح البخاری، احادیث الانبیا، باب ماذکر عن بنی اسرائین، ح:3456 و صحیح مسلم، العلم، باب اتباع سنن الیھود و النصاری، ح:2669)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لتتبعن کا لفظ بول کر قسمیہ انداز میں انتہائی تاکید کے ساتھ یہ پیش گوئی فرمائی کہ یہ امت پہلی امتوں کے راستوں کی پیروی ضرور کریگی اور اس طرح ان سے برابری کرے گی جیسے تیر کا ایک پر دوسرے پر کے بالکل برابر ہوتاہے۔ دونوں کے مابین کچھ فرق نہیں ہوتا۔
[4] (صحیح مسلم، الفتن، باب ھلاک ھذہ الام بعضھم ببعض، ح:2889)