کتاب: نور توحید - صفحہ 105
باب: ماجاء ان بعض ھذہ الامۃ یعبد الاوثان باب: اس امت کے بعض افراد بت پرستی میں مبتلا ہو ں گے [اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اُمت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افراد بت پرستی میں مبتلا ہوجائیں گے] [1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآئِِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً﴾[النساء] ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ؛ اور ان کا حال یہ ہے کہ جِبْت اور طاغُوت کو مانتے ہیں۔ اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ مؤمنوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ‘‘[2] اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
[1] اگر کوئی یہ کہے کہ: امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شرک اکبر میں مبتلا ہوہی نہیں سکتی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((إِن الشیطان قد یِئس أن یعبدہ المصلون فِی جزِیرۃِ العربِ، ولِکن فِی التحرِیشِ بینہم۔))صحیح مسلم، صفات المنافقین،ح:2812))۔ ’’شیطان اس بات سے مایوس و نامراد ہو چکا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں نمازی[مسلمان]اس کی عبادت کریں ، البتہ وہ ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتارہے گا۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت شرک اکبرمیں مبتلا نہ ہوگی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان اس بات سے مایوس، ناکام اور نامراد ہوچکا ہے مگر اللہ نے اسے اس سے مایوس نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شیطان اس بات سے ناامید ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں اور یہ بات یقینی ہے کہ نمازی ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے رہیں گے۔ اور سب سے بڑی برائی شرک ہے۔ جو لوگ صحیح معنوں میں نماز قائم کریں ، شیطان ان لوگوں سے واقعتا مایوس ہے وہ کبھی اس کی عبادت نہیں کریں گے۔ اس لیے حدیث کا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ اس امت میں سے کوئی بھی شیطان کی عبادت[اطاعت] نہیں کریگا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد کچھ عرب قبائل مرتد ہوگئے تھے۔ یہ بھی تو شیطان کی عبادت ہی تھی کیونکہ شیطان کی عبادت سے مراد اس کی اطاعت ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ’’ اے اولاد آدم!کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت[اطاعت]نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘[ یس36: ] اس آیت کی تفسیر ملاحظہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح شرک کے ارتکاب اور ایمان اور اس کے تقاضوں کو ترک کرنے میں شیطان کی اطاعت اس کی عبادت کے مترادف ہے، اسی طرح اوا مرونواہی میں بھی اس کی اطاعت اس کی عبادت ہی ہے۔‘‘ [2] جبت: ہر وہ چیز جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اعتقادا مخالفت ہو وہ جبت ہے۔ جادو بھی جبت ہے، کاہن کو بھی جبت کہا جاتا ہے اور حقیروگھٹیا ضرر رساں چیز کو بھی جبت کہتے ہیں۔اورطاغوت: ہر وہ معبود یا متبوع جسے انسان اس کی حد سے بڑھا دے، طاغوت ہے۔ شرعی طور پر متبوع کی حد یہ ہے کہ وہ انھی کاموں کا حکم دے جن کا شریعت نے حکم دیا ہے، اور ان کاموں سے روکے جن سے شریعت نے منع کیا ہے۔ لہذا شرعی حدود سے نکل کر جن کی عبادت، اتباع اور اطاعت کی جائے وہ سب طاغوت میں شامل ہیں۔