کتاب: نور توحید - صفحہ 103
’’آپ نے ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے گرد بنی دیوار کے ایک شگاف سے اندر داخل ہو کر قبر کے پاس دعا کرتے دیکھا تو اسے روک دیا اور فرمایا کیا میں تجھے وہ حدیث نہ سناؤں جو میرے باپ(حضرت حسین رضی اللہ عنہ)نے میرے دادا(حضرت علی رضی اللہ عنہ)سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ نے فرمایا:’’ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا۔ اور تم(نماز، دعا اور تلاوت قرآن ترک کرکے)اپنے گھروں کو قبرستان(کی مانند)نہ بنالینا اور مجھ پر درود پڑھتے رہنا۔ اس لیے کہ تم جہاں بھی ہو گے، تمہارا سلام مجھے پہنچ جائیگا‘‘[1] یہ حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث دونوں حسن سند کے ساتھ روایت کی گئی ہیں۔ دونوں جید درجہ کی ہیں۔ اس باب کے مسائل 1۔ اس تفصیل سے سورہ توبہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر و توضیح ہوتی ہے۔ 2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حدود شرک سے بہت دور رہنے کی ہدایت اور تلقین فرمائی ہے۔ 3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر نہایت شفیق و مہربان اور اس کی رشد و ہدایت کے انتہائی حریص اور خواہش مند تھے۔ 4۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص طریقہ پر اپنی قبر کی زیارت سے منع فرمایا ہے لیکن آپ کی قبر کی زیارت، شرعی حدود و قیود میں رہ کر کی جائے تو یہ انتہائی فضیلت والا عمل ہے۔ 5۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار زیارت قبر کے لیے جانے سے منع فرمایا ہے۔ 6۔ ان احادیث میں نفلی نماز گھروں میں ادا کرنے کی ترغیب بھی ہے۔
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید اور گلشن توحید کی مکمل حفاظت فرمائی اور ذریعہ شرک بننے والی ہر راہ حتی کہ اپنی قبر کی بھی حد درجہ تعظیم سے امت کو منع فرمایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی تعظیم میں غلو کرنا منع ہے تو باقی لوگوں کی قبروں کی بھی ایسی تعظیم کی اجازت نہیں۔ مگر افسوس کہ امت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و فرامین کی پروانہ کی۔ان سب احکام، ہدایات اور فرامین کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ ان پر میلے اور عرس کرنے لگے۔ ان پر قبے کھڑے کردیے۔حتی کہ ان پر چراغاں کیے جاتے ہیں ، قبروں پر جانورذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔کعبہ کی مانند ان کا بھی طواف ہوتا ہے۔ اور قبر کے اردگرد کی جگہ کو اسی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ یہ قبر پرست لوگ نبی یا کسی صالح و بزرگ شخصیت یا کسی ولی کی قبر کے پاس آکر اس قدر عاجزی ، انکسار اور خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی عاجزی نہیں کرتے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت اور ان سے عداوت کا اظہار ہے۔ والعیاذ باللہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو شرکِ جیسی معصیت سے ڈرایاہے؛ اور اُن اسباب و ذرائع سے آگاہ فرمایاہے جن کی وجہ سے ایک عام آدمی مرتکب شرک ہو سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک میں مبتلا ہونے کے اسباب بیان کئے۔ اُن اسباب و ذرائع میں سب سے اہم یہ ہیں: ۱۔ قبروں کی تعظیم کرنا۔ ۲۔ اُن کی تعظیم میں غلو سے کام لینا۔۳۔ قبرستان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا۔ ۴۔ قبرستان میں نماز پڑھنا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَ صَلُّوْا فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ ))۔’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ اور میری قبر کو (عید یعنی) عرس کی جگہ نہ ٹھہراؤ۔ اور مجھ پر درود و سلام بھیجو کیونکہ تم جہاں بھی رہو یہ دُرود و سلام مجھ تک بہرحال پہنچتا ہے۔‘‘ صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی طرف یا کسی دُوسری قبر یا مشہد کی طرف قصدًا جانا منع ہے کیونکہ اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اِس قبر کو زیارت گاہ بنا لیا گیا ہے، اور یہ ممنوع ہے۔ دوسری بات یہ کہ شرک میں مبتلا ہونے کا یہ سب سے بڑا ذریعہ اور سبب ہے۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین مساجد کے علاوہ کہیں سفر کر کے نہیں جانا چاہیے اور وہ یہ ہیں: مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔‘‘