کتاب: نور توحید - صفحہ 10
کِتَابُ التَّوْحِیْدِ کتاب توحید اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾(الذّٰریٰت: ۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘[1] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾(النحل: ۳۶) ’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘[2]
[1] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ یہاں پر خبر دے رہے ہیں کہ انہوں نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت بجا لائیں ؛ عبادت بجا لانا اللہ تعالیٰ سے کمال محبت کی دلیل ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو جیسے یہ بات پسند ہے کہ اس کی عبادت کی جائے؛ ایسے ہی اسے یہ بات بھی پسند ہے کہ اس کی حمد و ثناء بیان کی جائے؛ اور اس کے عالیشان اوصاف اور اچھے اچھے اسماء گرامی کے بیان سے اس کا ذکر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ تعریف و مدح سرائی کو پسند کرنے والا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ثناء بیان کی ہے۔ اور مسند میں حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ آپ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بیشک میں کئی اچھے اچھے کلمات سے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف بیان کی جائے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات سے محبت ہے؛ اسی لیے وہ اپنی ذات کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں ؛ تقدیس بیان کرتے ہیں ؛ اور ان لوگوں سے بھی محبت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور تقدیس بیان کرتے ہیں ‘‘۔[طریق الہجرتین ص ۲۳۹۔] نیز آپ یہ بھی فرماتے ہیں: ’’بیشک اللہ تعالیٰ یہ بتا رہے ہیں کہ اس نے مخلوق اس لیے نہیں پیدا کی کہ اسے ان کی کوئی ضرورت تھی۔ اور نہ ہی ان سے کوئی فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا۔ بلکہ اس نے مخلوق پر اپنا فضل کرم کرتے ہوئے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ اور یوں وہ ہر قسم کا فائدہ حاصل کرسکیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ﴾[اسراء ۷]’’اگر تم اچھائی کرو گے تو اپنے نفس کے لیے اچھائی کرو گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًافَلِاَنْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ ﴾[الروم۴۴]’’اور جو کوئی نیک عمل کرے سو وہ اپنے ہی لیے سامان تیار کر رہے ہیں۔‘‘ [2] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے’’اعلام الموقعین میں ۱/۴۹ پر طاغوت کی ایک ایسی تعریف کی ہے جو بڑی جامع و مانع ہے، وہ فرماتے ہیں:طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان حد سے تجاوز کر جائے، خواہ عبادت میں ہو، یا تابعداری میں ، یا اطاعت میں۔ ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں ، یا اللہ کے سوا اس کی پرستش کرتے ہیں ، یا بلا دلیل/بلا بصیرت اس کی اتباع کرتے ہیں ، یا اس کی اطاعت بغیر اس علم کے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔اگر آپ دنیا بھر کے لوگوں کا ان کے ساتھ[جاری ہے …]