کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 98
ا:حافظ ابن جوزی نے قلم بند کیا ہے: ’’ أيْ صَلُّوْا مَعَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘۔[1] ’’یعنی تم نماز ادا کرنے والوں کے ساتھ نماز ادا کرو۔‘‘ ب:قاضی بیضاوی نے تحریر کیا ہے: ’’ أيْ فِيْ جَمَاعَتِہِمْ ‘‘۔[2] ’’یعنی ان(نمازیوں)کی جماعت میں(تم نماز ادا کرو)۔‘‘ ج:علامہ ابوبکر کاسانی حنفی باجماعت نماز کے وجوب کے دلائل کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’ أَمَّا الْکِتَابُ فَقَوْلُہُ تَعَالیٰ:{ وارکعوا مع الراکعین } أَمَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِالرَّکُوْعِ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ،وَذٰلِکَ یَکُوْنُ فِيْ حَالِ الْمُشَارَکَۃِ فِيْ الرَّکُوْعِ،فَکَانَ أَمْرًا بِإِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ بِالْجَمَاعَۃِ،وَمُطْلَقُ الْأَمْرِ لِوُجُوْبِ الْعَمَلِ ‘‘۔[3] ’’قرآنِ کریم(کے نمازِ باجماعت کے وجوب کے دلائل میں)سے ارشادِ باری تعالیٰ:(ترجمہ:اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو)ہے۔اللہ تعالیٰ نے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی تعمیل(رکوع کرنے والوں کے ساتھ)رکوع میں شمولیت سے ہوتی ہے۔اس طرح یہ باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم ہے اور قرینے یا رکاوٹ سے خالی(صیغہ)امر عمل کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘
[1] زاد المسیر ۱/ ۷۵۔ [2] تفسیر البیضاوي ۱/ ۵۹؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱/ ۳۴۸؛ وروح المعاني ۱/ ۲۴۷۔ [3] بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ۱/ ۱۵۵۔ نیز ملاحظہ ہو: کتاب الصلاۃ للإمام ابن القیم ص ۶۶۔