کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 91
طور پر پتہ چلتا ہے۔ باجماعت فجر و عصر والوں کے لیے فرشتوں کی شفاعت کے متعلق روایت: امام ابن خزیمہ نے مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں حسبِ ذیل الفاظ روایت کیے ہیں: ’’ فَیَقُوْلُوْنَ:’’أَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ،وَتَرکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ،فَاغْفِرْلَہُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۔‘‘ [1] ’’پس وہ(فرشتے)عرض کرتے ہیں:’’ ہم ان کے پاس پہنچے،تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(جب)ہم ان سے جدا ہوئے،تو وہ حالتِ نماز میں تھے۔سو آپ انہیں روزِ قیامت معاف فرما دیجئے۔‘‘ تینوں روایات کے متعلق پانچ باتیں: ۱:فرشتوں کا کسی نماز میں جمع ہونا،بلاشبہ اس نماز کی خصوصی فضیلت کی دلیل ہے۔امام بخاری نے پہلی حدیث درجِ ذیل عنوان کے ضمن میں روایت کی ہے: [بَابُ فَضْلِ صَلَاۃِ الْفَجْرِ فِيْ جَمَاعَۃٍ] [2] [با جماعت نمازِ فجر کی فضیلت کے متعلق باب]۔ ب:امام نووی نے دوسری حدیث پر(دیگر احادیث کے ساتھ)حسبِ ذیل عنوان لکھا ہے:
[1] صحیح ابن خزیمۃ ، کتاب الصلاۃ ، جزء من رقم الحدیث ۳۲۲، ۱؍۱۶۵۔ امام احمد اور امام ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو: المسند، رقم الحدیث ۹۱۵۱، ۱۵؍۷۶۔۷۷؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبّان، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ والجماعۃ، فصل في فضل الجماعۃ، رقم الحدیث ۲۰۶۱، ۵؍۴۰۹۔۴۱۰)۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [اس کی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۱۵؍۷۷)۔ نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۱؍۳۱۷؛ و ہامش المسند للدکتور الحسیني ۱۷؍۱۵۴)۔ [2] صحیح البخاري ۲؍۱۳۷۔