کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 88
کا بھی یہی حکم ہے۔[1] ز:[مِنْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ] سے مراد با جماعت نمازِ فجر ہے۔واللہ تعالیٰ أعلم۔ ح:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے[حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے آزاد کرنے] کی تخصیص اس لیے فرمائی،کہ وہ سب سے اعلیٰ نسل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہیں۔[2] ط:جب ایک عام مؤمن غلام آزاد کرنے پر اللہ تعالیٰ آزاد کرنے والے شخص کے جسم کا ہر حصہ دوزخ کی آگ سے آزاد کرتے ہیں[3] تو اس عمل کی شان و عظمت کس قدر بلند ہو گی،جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ عزیز ہے؟ ی:مذکورہ بالا احادیث میں بیان کردہ ثواب حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں،کہ اس عمل کو ہمیشہ یا طویل یا ایک متعین مدت کے لیے کیا جائے۔احادیث شریفہ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے،کہ مذکورہ بالا ثواب ایک دفعہ اس عمل کے کرنے پر ہے۔واللہ تعالیٰ أعلم۔جس نصیب والے کو اس عمل کی ہر روز توفیق ملے،تو:ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ۔آمین یَا حَيُّ یَا قیُّومُ۔[4]
[1] ملاحظہ ہو: عون المعبود ۱۰؍۷۳؛ و مرعاۃ المفاتیح ۳؍۳۲۷۔ [2] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۳؍۵۱؛ و مرعاۃ المفاتیح ۳؍۳۲۷۔ [3] ملاحظہ ہو: صحیح البخاري ، کتاب العتق ، باب في العتق و فضلہ ، رقم الحدیث ۲۵۱۷، ۵؍۱۴۶؛ و صحیح مسلم، کتاب العتق ، باب فضل العتق ، رقم الحدیث ۲۱۔ (۱۵۰۹)، ۲؍۱۱۴۷۔) [4] ترجمہ: وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ جسے چاہیں، عطا فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والے ہیں۔ اے اللہ کریم! ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرما دیجیے۔ آمین یا حيُّ یا قیّوم۔