کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 85
وَعُمْرَۃٍ۔‘‘[1] ’’جس شخص نے صبح(کی نماز)با جماعت ادا کی،پھر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا،پھر اُٹھ کر دو رکعتیں ادا کیں،تو وہ حج و عمرے کے ثواب کے ساتھ پلٹا۔‘‘ ۲:امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ صَلَّی الْفَجْرَ فِيْ جَمَاعَۃٍ،ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ،ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَتْ لَہُ کَأَجْرِ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ۔‘‘ ’’جس شخص نے(نمازِ)فجر با جماعت ادا کی،پھر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا،پھراس نے دو رکعتیں اد اکیں،تو اس کے لیے حج و عمرے کے مانند ثواب ہے۔‘‘ انہوں(انس رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تَامَّۃٍ،تَامَّۃٍ،تَامَّۃٍ۔‘‘ [2] ’’پورا،پورا،پورا۔‘‘
[1] منقول از: الترغیب والترہیب ، کتاب الصلاۃ ، الترغیب في جلوس المرء مصلّاہ بعد صلاۃ الصبح و صلاۃ العصر، رقم الحدیث ۶، ۱؍۲۹۶۔ حافظ منذری لکھتے ہیں: ’’اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی [ سند جید] ہے۔‘‘ (المرجع السابق ۱؍۲۹۶)۔ حافظ ہیثمی نے بھی اس کے متعلق یہی تحریر کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۱؍۱۰۴؛ و صحیح الترغیب والترہیب ۱؍۳۱۹)۔ [2] جامع الترمذي، أبواب السفر، باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس ، رقم الحدیث ۵۸۳، ۳؍۱۵۷۔۱۵۸۔ امام ترمذی نے اسے [حسن غریب] اور شیخ البانی نے [حسن لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۳؍۱۵۸؛ و صحیح الترغیب والترہیب ۱؍۳۱۸)۔ نیز ملاحظہ ہو: تحفۃ الأحوذي۱؍۴۰۵۔