کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 82
کو)اس کے گھر داخل کر دیتاہے۔‘‘ نمازِ فجر کے لیے اوّلین جانے والے کی حیثیت کس قدر بلند ہے! اَللّٰہم إِنَّا نَسْأَلُکَ ذٰلِکَ۔[1] إِنَّکَ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ تنبیہ: صحابی حضرت میثم رضی اللہ عنہ کے[بَلَغَنِيْ] کہنے سے معلوم ہوتا ہے،کہ یہ روایت[مرفوع] ہے۔امام نووی رقم طراز ہیں: ’’حدیث میں جب صحابی کا ذکر کرنے کے بعد کہا جائے:’’یَرْفَعُہُ،أَوْ یَنْمِیْہِ،أَوْ یَبْلُغُ بِہِ،أَوْ رِوَایَۃً ‘‘ وہ[اسے اُٹھاتا(یعنی مرفوعاً بیان کرتا)ہے ] یا[اس کی نسبت کرتا ہے] یا[اسے پہنچاتا ہے] یا[بطورِ روایت بیان کرتا ہے۔]، تو یہ سب اور اسی قسم کی دیگر عبارتوں والی روایت اہلِ علم کے نزدیک مرفوع[2] ہوتی ہے۔‘‘ [3] علامہ نووی کے کلام کا مقصود یہ ہے،کسی صحابی کے یہ الفاظ بولنے،یا ان کی طرف انہیں منسوب کرنے سے مراد یہ ہوتی ہے،کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہے۔
[1] اے اللہ! ہم آپ سے اس کا سوال کرتے ہیں۔ [2] مرفوع: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب روایت۔ [3] ملاحظہ ہو: تقریب النواوي ۱؍۱۹۱۔۱۹۲؛ نیز ملاحظہ ہو: اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ، ص ۴۵؛ و نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر ص ۷۸؛ و فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للحافظ السخاوي ۱؍۱۲۵۔