کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 77
’’مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ فِيْ جَمَاعَۃٍ کَانَ کَقِیَامِ نِصْفِ لَیْلَۃٍ،وَمَنْ صَلَّی الْعِشَائَ وَالْفَجْرَ فِيْ جَمَاعَۃٍ کَانَ کَقِیَامِ لَیْلَۃٍ۔‘‘[1]
’’جس شخص نے عشاء با جماعت ادا کی،تو وہ آدھی رات عبادت کرنے کی مانند ہے اور جس نے عشاء اور فجر(دونوں)با جماعت ادا کیں،(تو)وہ ساری رات قیام کرنے جیسا ہے۔‘‘
۲:امام ابن حبان نے امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے،(کہ)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَںْ صَلَّی الْعِشَائَ وَالْغَدَاۃَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ اللَّیْلَ۔‘‘ [2]
’’جس شخص نے عشاء اور فجر(دونوں)با جماعت ادا کیں،تو گویا کہ اس نے(پوری)رات قیام کیا۔‘‘
اس حدیث پر امام ابن حبان کے تحریر کردہ عنوان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔وہ عنوان یہ ہے:
[ذِکْرُ تَفَضُّلِ اللّٰہِ جَلَّ وَعَلَا بِکَتْبِہِ قِیَامَ اللَّیْلِ کُلِّہِ لِلْمُصَلِّيْ صَلَاۃَ الْعِشَائِ وَالْغَدَاۃِ فِيْ جَمَاعَۃٍ۔][3]
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، رقم الحدیث ۵۵۱،۲؍۱۸۳؛ و جامع الترمذي ، أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل العشاء والفجر في جماعۃ، رقم الحدیث ۲۲۱، ۲؍۱۱؛ و کتاب ’’الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف‘‘، کتاب الإمامۃ ، ذکر فضل صلاۃ العشاء والفجر فيْ جماعۃ ، رقم الحدیث ۱۸۸۹، ۴؍۱۳۱۔۱۳۲۔ امام ترمذی نے اسے [ حسن صحیح] اور شیخ البانی نے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۲؍۱۲؛ و صحیح سنن الترمذي ۱؍۱۷۱)۔
[2] الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبّان، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ والجماعۃ، رقم الحدیث ۲۰۵۸، ۵/ ۴۰۷
[3] المرجع السابق ۵؍۴۰۷۔