کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 70
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ الشَّیْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ کَذِئْبِ الْغَنَمِ،یَأْخُذُ الشَّاۃَ الْقَاصِیَۃَ وَالنَّاحِیَۃَ،فَإِیَّاکُمْ وَالشِّعَابَ،وَعَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ وَالْعَامَّۃِ وَالْمَسْجِدِ۔‘‘ [1] ’’بلاشبہ شیطان انسانوں کا بھیڑیا ہے،جیسے کہ بکریوں کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے،جو کہ گلہ سے دُور ہونے والی اور کنارے والی بکری پکڑ لیتا ہے۔پس تم(الگ الگ)وادیوں(میں بھٹکنے)سے بچو۔جماعت،عام مسلمانوں اور مسجد کے ساتھ چمٹے رہو۔‘‘ با جماعت نماز کے بارے میں کوتاہی کرنے والا خود کو کتنی بڑی ہلاکت کے حوالے کرتا ہے۔اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْہُمْ۔آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔[2] ۔۱۴۔ نمازیوں کی تعداد میں اضافے سے نمازِ باجماعت کی فضیلت میں اضافہ حضراتِ ائمہ ابوداؤد طیالسی،عبد بن حمید،احمد،ابوداؤد،نسائی،ابن خزیمہ،ابن حبان اور حاکم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِنَّ صَلَاۃَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْکٰی مِنْ صَلَاتِہِ وَحْدَہُ،وَ صَلَاتَہُ مَعَ الرَّجُلَیْنِ أَزْکٰی مِنْ صَلَاتِہِ مَعَ الرَّجُلِ،وَمَا کَثُرَ فَہُوَ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔‘‘ [3]
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۲۰۲۹، ۳۶؍۳۵۸۔ شیخ احمد البنا نے اس کی [ سند کو جید] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے [الحسن لغیرہ] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: بلوغ الأماني ۵؍۱۷۶ ؛ و ہامش المسند ۳۶؍۳۵۸)۔ [2] اے اللہ! ہمیں ان میں سے نہ کرنا۔ آمین یا رب العالمین۔ [3] مسند أبي داود الطیالسي، جزء من رقم الحدیث ۵۵۶، ۱؍۴۴۹؛ و المنتخب من مسند عبد بن حمید، جزء من رقم الحدیث ۱۷۳، ۱؍۱۸۳؛ والمسند ، جزء من رقم الحدیث ۲۱۲۶۵، ۳۵؍۱۸۸۔۱۸۹؛ و سنن أبي داود ، کتاب الصلاۃ ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ ، جزء من رقم الحدیث ۵۵۰، ۲؍۱۸۲؛ و سنن النسائي ، کتاب الإمامۃ ، الجماعۃ إذا کانوا اثنین ، ۲؍۱۰۴۔۱۰۵؛ و صحیح سنن ابن خزیمۃ ، کتاب الإمامۃ في الصلاۃ ، جزء من رقم الحدیث ۱۴۷۶، ۲؍۳۶۶۔۳۶۷؛ و الإحسان في تقریب صحیح ابن حبّان، باب الإمامۃ والجماعۃ، جزء من رقم الحدیث ۲۰۵۶،۵؍۴۰۵؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الصلاۃ، ۱؍۲۴۷۔۲۵۰۔ الفاطِ حدیث سنن أبي داود کے ہیں۔ حضراتِ ائمہ ابن معین، ابن المدینی ، ذہلی ، حاکم اور ڈاکٹر محمد الترکی نے اسے [صحیح]؛ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [حسن] اور شیخ البانی نے اسے [ حسن لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین ۱؍۲۵۰؛ والتلخیص ۱؍۲۵۰؛ والترغیب والترہیب ۱؍۲۶۴؛ وہامش المسند ۳۵؍۱۸۹؛ وصحیح الترغیب والترہیب ۱؍۲۹۲)۔