کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 64
ذَنْبِہِ۔‘‘[1] ’’جب امام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ} کہے،تو تم[آمین] کہو،کیونکہ فرشتے(بھی اسی وقت)[آمین] کہتے ہیں اور امام(بھی)کہتا ہے،سو جس کی[آمین] فرشتوں کی[آمین] سے موافقت کر گئی،اس کے سابقہ گناہ معاف کیے گئے۔‘‘[2] ب:دعا کی قبولیت: امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور(اس میں)ہمارے لیے ہماری سنّتیں بیان فرمائیں اور ہماری نماز کی ہمیں تعلیم دی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِذَا صَلَّیْتُمْ فَأَقِیْمُوْا صُفُوْفَکُمْ،ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمْ أَحَدُکُمْ،فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا،وَإِذَا قَالَ:{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ}،فَقُوْلُوْا:’’آمِیْنَ‘‘،یُجِبْکُمُ اللّٰہُ۔‘‘[3] ’’جب تم نماز پڑھو،تو اپنی صفیں درست کرو،پھر تم میں سے ایک تمہاری امامت کروائے،سو جب وہ[اللہ اکبر] کہے،تو تم(بھی)[اللہ اکبر] کہو
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبّان، ۵؍۱۰۶۔۱۰۷۔ [2] [آمین کہنے میں فرشتوں کی موافقت]: اس کی شرح میں امام ابن حبان رقم طراز ہیں: ’’ فرشتے ریا ، دکھلاوے یا خود پسندی کے بغیر خالص اللہ تعالیٰ کے لیے [ آمین] کہتے ہیں۔ جب ( نماز) پڑھنے والا ریا ، دکھلاوے یا خود پسندی کے بغیر اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے [ آمین] کہے گا، تو اس کی [آمین] اخلاص میں فرشتوں ایسی ہو گی اور اس کے گزشتہ گناہ معاف کیے جائیں گے۔ ‘‘ (المرجع السابق ۵؍۱۰۸)۔ [3] صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب التشہد في الصلاۃ، جزء من رقم الحدیث ۶۲۔ (۴۰۴)، ۱؍۳۰۳۔