کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 45
ہونا،اس طرح ہر روز دس،ہر مہینے میں کم و بیش تین سو اور ہر سال میں تقریباً تین ہزار پانچ سو پچاس جنت کی ضیافتیں یا جنت کے محلّات تیار کیے جائیں۔ پھر ان ضیافتوں یا محلّات کی عمدگی،اچھائی اور نفاست کیسی ہو گی،کہ ان کے تیار کرنے والے خود خالقِ کائنات اللہ عزوجل ہیں! اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا مِنْہَا،وَلَا أَوْلَادَنَا،وَإِخْوَانَنَا،وَأَخَوَاتِنَا،وَأَوْلَادَہُمْ،وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ أَجْمَعِیْنَ۔آمین یَاحَيُّ یَا قَیُّوْمُ! ۔۳۔ مسجد میں آنے والے کا اللہ تعالیٰ کا مہمان بننا امام طبرانی نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ تَوَضَّأَ فِيْ بَیْتِہِ،فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ،ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ،فَہُوَ زَائِرُ اللّٰہِ،وَحَقٌّ عَلَی الْمَزُوْرِ أَنْ یُکْرِمَ الزَّائِرَ۔‘‘[1] ’’جس شخص نے اپنے گھر میں اچھی طرح وضو بنایا،پھر وہ مسجد آیا،تو وہ اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے اور بے شک میزبان کے ذمے مہمان کی تکریم کرنا لازم ہے۔‘‘ جب میزبان اللہ جل جلالہ ہوں،تو تکریم کیسی ہو گی؟زبان و قلم ہی اس کے بیان سے قاصر نہیں،بلکہ انسانی ذہن بھی اس کے كما حقہ تصور کرنے سے عاجز ہے۔اللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا مِنْہُ۔آمِیْنَ یاَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
[1] مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، کتاب الصلاۃ ، باب المشي إلی المساجد، ۲؍۳۱۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں: ’’اسے طبرانی نے (المعجم) الکبیر میں روایت کیا ہے، اور اس کی دو میں سے ایک [سند کے راویان صحیح کے روایت کرنے والے] ہیں۔‘‘ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍۳۱)۔