کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 43
دیا گیا،جو روزِ قیامت ان کے لیے روشنی مہیا کرے گا۔‘‘[1] اے اللہ کریم! ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس نور سے محروم نہ رہنے دینا۔آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔ ل:مسجد کی طرف ہر آنے جانے پر جنت میں مہمانی کی تیاری: م:مسجد کی طرف ہر آنے جانے پر جنت میں ایک گھر کی تیاری: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے،(کہ)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ وَرَاحَ أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ نُزْلَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ کُلَّمَا غَدَا أَوْرَاحَ۔‘‘[2] ’’ جو شخص مسجد کی طرف آئے جائے،تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر آنے یا پلٹنے پر اس کے لیے جنت میں ایک مہمانی تیار فرماتے ہیں۔‘‘ حدیث شریف کے حوالے سے دو باتیں: رحمہ اللہ: حافظ ابن حجر نے حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں[غَدَا] کی بجائے[خَرَجَ][یعنی روانہ ہوا] ہے اور اس طرح[اَلْغَدُوُّ] سے مقصود[جانا] اور[اَلرَّوَاحُ] سے مراد[واپس آنا] ہو گا۔[3]
[1] فیض القدیر ۳؍۲۰۱۔ [2] متفق علیہ: صحیح البخاري ، کتاب الأذان، باب فضل من غدا إلی المسجد و من راح، رقم الحدیث ۶۶۲، ۲؍۱۴۸ ؛ و صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب المشي إلی الصلاۃ تمحي بہ الخطایا و ترفع بہ الدرجات ، رقم الحدیث ۲۸۵۔ (۶۶۹)، ۱؍۴۶۳۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاري کے ہیں۔ [3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲؍۱۴۸۔ حافظ رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے: بنیادی طور پر [الغُدْوَۃٌ] سے مراد دن کے ابتدائی حصے میں جانا اور [ الرّواح] سے زوال کے بعد جانا ہوتا ہے، لیکن بسا اوقات ان دونوں کو کسی وقت بھی جانے میں استعمال کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍۱۴۸؛ نیز ملاحظہ ہو: المفہم ۲؍۲۹۴)۔