کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 40
یعنی تمہارا ان اعمال کا کرنا[جہاد فی سبیل اللہ] کی مانند ہے۔[1] ۲: مذکورہ بالا روایت کی نسبت حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی،لیکن حضرات ِ صحابہ جیسا کہ محدّثین نے بیان کیا ہے کسی عمل کے ثواب وعقاب کا بیان اپنی طرف سے نہیں کرتے۔اس بارے میں ان کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں،اسی بنا پر حضراتِ صحابہ کے ایسے اقوال کو[حکمًامرفوع ] قرار دیا جاتا ہے۔ خلاصۂ گفتگو یہ ہے،کہ مسجد کی طرف آنے جانے والا[جہاد فی سبیل اللہ] کا ثواب پاتا ہے۔جب یہ عظیم الشان ثواب صرف جانے آنے پر ہے،تو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے پر اجر کس قدر جلیل القدر ہو گا۔اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا مِنْہُ جَمِیْعًا۔آمِیْنَ یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ۔ ک:تاریکیوں میں بار بار مسجد جانے پر روزِ قیامت کامل نور کی بشارت: اس بارے میں ذیل میں دو حدیثیں ملاحظہ فرمایئے: ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے لوگوں کو خود بشارت دینا: امام ابن ماجہ اور امام ابن خزیمہ نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لِیَبْشَرِ الْمَشَّاؤُوْنَ فِيْ الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِنُوْرٍ تَامٍّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘‘ [2] ’’ظلمتوں میں مسجدوں کی طرف بار بار جانے والوں کے لیے روزِ قیامت
[1] یہ حدیث ، اس کی تخریج اور شرح اس کتاب کے صفحات ۳۱۔ ۳۲ میں گزر چکی ہے۔ [2] سنن ابن ماجہ ، أبواب المساجد والجماعات ، باب المشي إلی الصلاۃ ، رقم الحدیث ۷۶۴ ، ۱؍۱۴۰ ؛ و صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الإمامۃ في الصلاۃ ، و ما فیہا من السنن ، باب فضل المشي إلی الصلاۃ في الظلام باللیل، رقم الحدیث ۱۴۹۸، ۲؍۳۷۷۔ الفاظِ حدیث سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح لغیرہ] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۱؍۲۴۷)۔ حافظ منذری نے لکھا ہے: یہ حدیث ابن عباس ، ابن عمر ، ابی سعید خدری، زید بن حارثہ اور ان کے علاوہ (دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ) کے حوالے سے روایت کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو: (الترغیب والترہیب ۱/۲۱۳)۔