کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 38
یُرِیْدُ أَدَائَ فَرْضِہِ مَا دَامَ یَمْشِيْ فِيْ طَرِیْقِہِ إِلَی الْمَسْجِدِ۔][1] ’’مسجد کی طرف فرض نماز ادا کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے والے کا،جب تک وہ مسجد کی راہ میں ہو،اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے حالتِ نماز میں لکھنے کا بیان۔‘‘ ۲: ایسا شخص صرف مسجد کی طرف جاتے وقت ہی نہیں،بلکہ اپنے گھر واپس پہنچنے تک حالتِ نماز میں لکھا جاتا ہے۔امام ابن خزیمہ اور امام حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُکُمْ فِيْ بَیْتِہِ،ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ،کَانَ فِيْ صَلَاۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ،فَلَا یَقُلْ ہٰکَذَا:وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ۔‘‘[2] ’’جب تم میں سے کوئی اپنے گھر وضو کر لے،پھر مسجد میں آئے،تو وہ(اپنے گھر)پلٹنے تک نماز میں ہوتا ہے،لہٰذا وہ ایسے نہ کرے:’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے(ایک ہاتھ کی)انگلیاں(دوسرے ہاتھ کی)انگلیوں میں داخل فرمائیں۔‘‘ [حالتِ نماز] میں ہونے سے مراد یہ ہے،کہ اس کے لیے نماز ادا کرنے کا
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبّان، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ والجماعۃ ، رقم الحدیث ۲۰۳۶، ۵؍۳۸۲۔۳۸۳۔ [2] صحیح ابن خزیمہ ، کتاب الصلاۃ ، باب النہي عن التشبیک بین الأصابع عند الخروج إلی الصلاۃ ، رقم الحدیث ۴۴۷، ۱؍۲۲۹؛ و المستدرک علی الصحیحین، کتاب الصلاۃ ۱؍۲۰۶۔ امام حاکم نے اسے [ شیخین کی شرط پر صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔ شیخ البانی نے اسے [ صحیح] قرار دیاہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱؍۲۰۶ ؛ والتلخیص ۱؍۲۰۶؛ و صحیح الترغیب والترہیب ۱؍۲۲۷)۔