کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 279
اجازت نہیں۔عذر کے بغیر اسے ترک کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ان کے عام مشائخ کے نزدیک یہ[واجب] ہے۔بعض نے اسے[سنّت مؤکَّدہ] کہا ہے،لیکن انہوں نے بھی اس کی تفسیر وہی کی ہے،جو[واجب] کی ہے۔اس طرح ان کا عام مشائخ سے اختلاف لفظی ہے،معنوی یا حقیقی نہیں۔ ب:بعض مالکی علماء نے اسے[سنّت] کہا ہے اور بعض نے[سنّت مؤکَّدہ] قرار دیا ہے،کہ اس کے کرنے والا ثواب پاتا ہے اور چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔بعض مالکی علماء نے اسے[واجب] بھی کہا ہے۔ ج:امام شافعی کسی کو بلاعذر باجماعت نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔ان کے نزدیک بچے کو اس میں شریک ہونے کا حکم دیا جائے،تاکہ یہ بات بچپن ہی سے اس کی عادت بن جائے۔علمائے شافعیہ میں سے بعض نے اسے[فرضِ عین]،بعض نے[فرضِ کفایہ]،بعض نے[سنّت مؤکَّدہ] قرار دیا ہے اور بعض نے اسے[سنّت] کا نام دیا ہے،لیکن ان کا مقصود[سنّت مؤکَّدہ] ہے۔تمام شافعی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے،کہ اسے بلا عذر چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔ د:امام احمد کا باجماعت نماز کے بارے میں واضح قول یہ ہے،کہ وہ[فرضِ عین] ہے،البتہ وہ[صحتِ نماز کے لیے شرط] نہیں۔بعض حنبلی علماء نے اسے[صحتِ نماز کے لیے شرط] بھی قرار دیا ہے۔ ہ:اہلِ ظاہر اسے[فرضِ عین] اور[صحت نماز کے لیے شرط] قرار دیتے ہیں۔ و:جن جلیل القدر علماء کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے،ان میں سے کوئی بھی مریض اور خوف زدہ شخص کے علاوہ کسی اور کو باجماعت نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔اس کی فرضیّت مقیم،مسافر،شہری اور دیہاتی سب پر ہے۔بعض نے واضح طور پر بیان کیا ہے،کہ باجماعت نماز چھوڑنے کے بارے میں والدین کے حکم کی بھی تعمیل نہ کی