کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 278
بلاعذر گھر میں ادا کی ہوئی نماز کے غیر معتبر ہونے کا قطعی اور دو ٹوک فیصلہ فرمایا،[اس سے پیچھے رہنے کو] منافق لوگوں کی علامت قرار دیا،باجماعت نماز سے خالی بستی پر شیطان کے تسلّط کی خبر دی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب کی وعید سنائی اور ایسے لوگوں کو ان کے گھروں سمیت،جلانے کے لیے اپنے مصمّم ارادے کا اظہار فرمایا۔اللہ علیم و خبیر نے بھی اذان سن کر مسجد میں نہ آنے والوں کے بُرے انجام کی خبر دی۔ ۳:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باجماعت نماز کا بہت زیادہ خیال رکھتے۔نیند کے شدید تقاضے کے باوجود نمازِ فجر کے ضیاع کے ڈر سے سونے کی خاطر پڑاؤ نہ ڈالتے،پڑاؤ ڈالنے کی صورت میں سونے سے پہلے صحابہ کو جگانے کی ذمہ داری سونپی،صبح صادق سے کچھ دیر پہلے سوتے وقت لیٹ کر نہ سوئے،اذان سننے پر بستر سے اٹھنے میں جلدی فرماتے،شدید لڑائی کے دوران اسے قائم فرماتے اور شدّتِ مرض اور نہایت لاغری میں باجماعت نماز کی خاطر مسجد میں تشریف آوری کے لیے تاحدِّ استطاعت کوشش فرمائی۔ ۴:سلف صالحین کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام: یہ پاک باز لوگ باجماعت نماز کی طرف خصوصی توجّہ دیتے۔وہ تنگی،آسانی،صحت،بیماری،حضر وسفر،غرضیکہ ہر حالت میں اس کے قائم کرنے کی خاطر کوشش کرتے،دوسروں کو اس کی دعوت دیتے۔دورِ اوّلین کے مسلمان حکمران بھی اس سے غفلت نہ کرتے۔خود اس کا شدید اہتمام کرتے اور دوسروں سے اس کی پابندی کروانے کے لیے جدوجہد کرتے۔ ۵:باجماعت نماز کے بارے میں علمائے امت کا موقف: ا:علمائے احناف کا اس بات پر اتفاق ہے،کہ کسی کو اسے بلا عذر چھوڑنے کی