کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 274
’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔صلي اللّٰه عليه وسلم۔إِنِّيْ أُحِبُّ الصَّلَاۃَ مَعَکَ‘‘۔ ’’یا رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔! بے شک میں آپ کے ساتھ نماز پسند کرتی ہوں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قَدْ عَلِمْتُ أَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلَاۃَ مَعِيْ،وَصَلَا تُکِ فِيْ بَیْتِکِ خَیْرٌ لَکِ مِنْ صَلَا تِکِ فِيْ حُجْرَتِکِ،وَصَلَا تُکِ فِيْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَا تِکِ فِيْ دَارِکِ،وَصَلَا تُکِ فِيْ دَارِکِ خَیْرٌ لَکِ مِنْ صَلَا تِکِ فِيْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ،وَصَلَاتُکِ فِيْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ لَکِ مِنْ صَلَا تِکِ فِيْ مَسْجِدِيْ‘‘۔[1] ’’بے شک مجھے معلوم ہے،کہ تم میرے ساتھ نماز اد اکرنا پسند کرتی ہو،(لیکن)اپنے گھر میں تمہاری نماز حجرے میں تمہاری نماز سے افضل ہے اور تمہاری حجرے میں نماز اپنے صحن میں تمہاری نماز سے افضل ہے اور تمہارے صحن میں نماز اپنی قوم کی مسجد میں تمہاری نماز سے افضل ہے اور تمہاری قوم کی مسجد میں نماز میری مسجد میں تمہاری نماز سے افضل ہے۔‘‘
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۷۰۹۰، ۴۵/ ۳۷۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں: اسے احمد نے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن سوید انصاری کے سوا اس کے [راویان صحیح کے روایت کرنے والے ہیں] اور ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی [سند کو حسن] کہا ہے۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۲/ ۴۳؛ وفتح الباري ۲/ ۳۵۰؛ وہامش المسند ۴۵/ ۳۷)۔