کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 270
وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ وَکَلَہُ اللّٰہُ إِلَی النَّاسِ۔‘‘ [1] [’’جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتا ہے،تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی اذیّت سے بچا لیتے ہیں اور جو شخص لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے،تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں‘‘]۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ،رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ،وَأَرْضَی النَّاسَ عَنْہُ۔وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ،سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ،وَأَسْخَطَ عَلَیْہِ النَّاسَ‘‘۔[2] [’’جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتا ہے،(تو)اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کردیتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کی رضا طلب کرتا ہے،(تو)اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی اس پر ناراض کردیتے ہیں۔‘‘ ] تو کیا اس کے بعد کسی کی بھی رضا کی خاطر باجماعت نماز چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنا عقل مندی کا سودا ہے؟
[1] جامع الترمذي، أبواب الزہد، باب، جزء من رقم الحدیث ۲۵۲۷ عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا ، ۷/ ۸۲۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح جامع الترمذي ۲/ ۲۸۸)۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبّان، کتاب البر والإحسان، باب الصدق والأمر بالمعروف والنہي عن المنکر، ذکر رضاء اللّٰہ جل وعلا عمن التمس رضاہ بسخط الناس، رقم الحدیث ۲۷۶ عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا ، ۱/ ۵۱۰۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی [سند کو حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش الإحسان ۱/ ۵۱۰)۔