کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 269
دیتے ہیں اور جسے چاہیں ذلیل کردیتے ہیں۔آپ ہی کے ہاتھ میں ہر بھلائی ہے۔بے شک آپ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہیں۔] ان کے عطا فرمانے پر پر کوئی روک نہیں سکتا اور روکنے پر کوئی دے نہیں سکتا۔انہی کا ارشادِ عالی ہے: {مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} [1] [اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے جو رحمت کھول دیں،تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو روک لیں،تو اس کے بعد کوئی اسے بھیجنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب اور کمال حکمت والے ہیں۔] جب صورتِ حال یہ ہے،تو دنیا کی کسی بھی چیز کے حصول کی خاطر باجماعت نماز میں کوتاہی کرکے کائنات کے تنہا مالک اور عطا کرنے کا بلا شرکت غیرے اختیار رکھنے والے رب کریم سے بگاڑنے کی حماقت کا کیا جواز ہے؟ ۳:رضائے مخلوق کی خاطر خالق کو ناراض کرنے کا منافی ٔعقل ہونا: کسی بھی شخص یا گروہ کی خوش نودی کی خاطر باجماعت نماز میں کوتاہی سے پیشتر خوب اچھی طرح غور کیا جائے،کہ اس طرزِ عمل سے کون ناراض ہوں گے؟ان کی ناراضی کے کیا اثرات ہوں گے؟اور اگر دوسروں کی ناراضی کی پرو اکیے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی جستجو کی جائے،تو پھر کیا نتائج ہوں گے؟ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیسی عظیم الشان راہ نمائی فرمائی ہے۔ارشادِ کریم ہے: ’’ مَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللّٰہ بِسَخَطِ النَّاسِ کَفَاہُ اللّٰہُ مَؤُوْنَۃَ النَّاسِ۔
[1] سورۃ فاطر/ الآیۃ ۲۔