کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 260
وَعَلَیْکَ بِنُصْحِ أَبِیْکَ بِرِفْقٍ،وَقِرَائَ ۃِ الْفَتْوٰی عَلَیْہِ،رَجَائَ أَنْ یَہْدِیَہُ اللّٰہُ بِذٰلِکَ ‘‘۔[1] ’’فرض نماز باجماعت ادا کرنے کی غرض سے آپ کا مسجد میں جانا درست(اقدام)ہے۔والد کے دکان میں نماز ادا کرنے کے حکم کی تعمیل نہ کیجیے،کیونکہ خالق کی نافرمانی کی صورت میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔ اپنے والد کو نرمی کے ساتھ نصیحت کیجیے اور(یہ)فتویٰ انہیں اس امید کے ساتھ سنائیے،کہ(شاید)اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دیں۔‘‘ ب:شیخ عبدالرحمن السعدی [2] لکھتے ہیں: ’’ وَہِيَ فَرْضُ عَیْنٍ لِلصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ عَلَی الرِّجَالِ حَضْرًا وَسَفْرًا‘‘۔[3] ’’وہ(یعنی با جماعت نماز)مَردوں پر حضر وسفر میں پانچوں نمازوں کے لیے فرضِ عین ہے۔‘‘ ج:شیخ عبداللہ بن محمد بن حمید [4] کا فتویٰ: شیخ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: ’’ مَنْ سَمِعَ الْأَذَانَ،وَلَمْ یَشْہَدْ صَلَاۃَ الْجَمَاعَۃِ بِدُوْنِ عُذْرٍ،
[1] فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ، الفتویٰ رقم ۵۷۱۳، ۷/ ۶۱۔ [2] شیخ عبدالرحمن السعدي: ابوعبداللہ، عبدالرحمن بن ناصر آل سعدي، ۱۳۰۷ھ میں پیدا اور ۱۳۷۶ھ میں فوت ہوئے۔ تفسیر السعدي اور دیگر چالیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور سعودی عرب کے کبار علماء کے استاذ۔ (ملاحظہ ہو: کتاب ’’منہج السالکین‘‘ کے محقق کا مقدمہ ص ۱۱۔۴۳)۔ [3] منہج السالکین وتوضیح الفقہ فی الدین ص ۷۷۔۔ [4] شیخ عبداللہ بن محمد بن حمید: المسجد الحرام کے دینی وانتظامی امور، سعودی مجلسِ قضاء اعلیٰ اور رابطہ عالم اسلامی کے مجمع فقہ اسلامی کے سابق رئیس، ۱۴۰۲ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: مقدمہ ’’الفتاویٰ والدروس في المسجد الحرام‘‘ ص ۱۷۔ ۴۸) ۔