کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 26
علاوہ ازیں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے،کہ بنو سلمہ کے لیے[اپنے گھروں ہی میں رہنے]کا یہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم درجِ ذیل آیتِ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد کا تھا: {إِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَ نَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَہُمْ} [1] ’’بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کریں گے اور جو(نیک)کام وہ آگے بھیج چکے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان،ہم انہیں لکھ رہے ہیں۔‘‘ امام ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’کَانتْ بَنُوْ سَلِمَۃَ فِيْ نَاحِیَۃِ الْمَدِیْنَۃِ فَأَرَادُوْا النَّقْلَۃَ إِلٰی قُرْبِ الْمَسْجِدِ،فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ:{إِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَ نَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَہُمْ} ‘‘[2] ’’بنو سلِمہ مدینہ(طیبہ)کے ایک کنارے میں(رہائش رکھتے)تھے۔انہوں نے مسجد(نبوی)کے پڑوس میں منتقلی کا ارادہ کیا،تو یہ آیت نازل ہوئی:(ترجمہ:بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کریں گے اور جو(نیک)کام وہ آگے بھیج چکے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشانات،ہم انہیں لکھ
[1] سورۃ یٰس؍ جزء من الآیۃ ۱۲۔ [2] جامع الترمذي، أبواب تفسیر القران، سورۃ یٰس، رقم الحدیث ۳۴۴۳، ۹؍۶۸۔ امام ترمذی نے اسے [حسن غریب] کہا ہے۔ امام حاکم نے اسی مفہوم کی حدیث روایت کر کے اسے [ صحیح] قرار دیا ہے، حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔ علامہ واحدی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ علامہ مبارکپوری لکھتے ہیں: اسے ابن ابی حاتم، ابن جریر اور بزّار نے روایت کیا ہے۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۹؍۶۸؛ و المستدرک علی الصحیحین ۲؍۴۲۸۔۴۲۹؛ والتلخیص ۲؍۴۲۹؛ و أسباب النزول للواحدي ص ۲۷۴؛ و صحیح سنن الترمذي ۳؍۹۷)۔