کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 259
’’کیا مسلمان کے لیے پڑھائی کی مشغولیت اور اسباق کے اوقات کی بنا پر باجماعت نماز چھوڑنا جائز ہے؟‘‘ ان کی طرف سے حسبِ ذیل جواب دیا گیا: ’’ یَجِبُ عَلَی الْمُسْلِمِ أَنْ یُؤَدِّيَ الصَّلَاۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ مَعَ الْجَمَاعَۃِ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ فِيْ الْمَسَاجِدِ۔وَلَا یَجُوْزُ لَہُ أَنْ یَتَخَلَّفَ عَنْہَا إِلَّا لِعُذْرٍ شَرْعِيٍّ کَمَرَضٍ أَوْ خَوْفٍ۔ أَمَّا الْاِشْتِغَالُ بِالدَّرَاسَۃِ فَلَا یُسَوِِّغُ تَرْکَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔[1] ’’مسلمان پر واجب ہے،کہ وہ فرض نماز مسلمانوں کے ساتھ مسجدوں میں باجماعت ادا کرے۔شرعی عذر،جیسے بیماری یا خوف،کے سوا اس سے پیچھے نہ رہے۔پڑھائی میں مشغولیت ترکِ جماعت کے لیے عذرِ شرعی نہیں ہے۔‘‘ رحمہ اللہ صلي الله عليه وسلم:اسی مجلس سے سوال کیا گیا: ’’میری دکان ہے،نماز کے وقت میں باجماعت نماز ادا کرنے کی غرض سے مسجد جاتا ہوں۔میرے والد کہتے ہیں:’’دکان میں نماز پڑھو اور مسجد نہ جاؤ۔‘‘ کیا اس بارے میں والد کی اطاعت واجب ہے؟ مجلسِ دائمی نے اپنے جواب میں تحریر فرمایا: ’’ لَقَدْ أَصَبْتَ فِيْ ذِہَابِکَ إِلَی الْمَسْجِدِ لِأَدَائِ صَلَاۃِ الْفَرِیْضَۃِ جَمَاعَۃً فِیْہِ،وَلَا تُطِعْ وَالِدَکَ فِيْ أَمْرِہِ إِیَّاکَ بِالصَّلَاۃِ فِي الْمَتْجَرِ،فَإِنَّہُ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔
[1] فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ، الفتویٰ رقم ۵۷۱۳، ۷/ ۵۶۔