کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 257
ب:مریض اور خوف زدہ شخص کے علاوہ کسی بھی شخص کے لیے باجماعت نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ ج:باجماعت نماز کی فرضیّت مقیم اور مسافر دونوں پر ہے۔ د:شہری اور دیہاتی سب پر نمازِ باجماعت فرض ہے۔ ہ:باجماعت نماز چھوڑنے کے بارے میں والدین کے حکم کی تعمیل نہیں کی جائے گی۔ و:اذان سننے کے بعد باجماعت نماز کی تیاری کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہونا جائز نہیں۔ ز:باجماعت نماز کے لیے جانے کی صورت میں کسی چیز کے ضائع ہونے کے اندیشے کے باوجود اس کے لیے جانا ضروری ہے۔ ح:مسجد کی طرف جانا ناممکن نہ بنانے والی بیماری کی بنا پر باجماعت نماز کے لیے جانا ترک نہ کیا جائے گا۔ ط:امام حسن بصری اور امام اوزاعی باجماعت نماز کو[فرضِ عین] سمجھتے تھے۔امام بخاری کی تحریر سے بھی ان کی یہی رائے معلوم ہوتی ہے۔ کیا اس کے بعد باجماعت نماز سے پیچھے رہنے کی خاطر یہ بہانہ پیش کرنا: [جمہور علمائے امت اسے[سنّت] کہتے ہیں،کہ جس کے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر گناہ نہیں] مناسب ہے؟ { إِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ } [1]
[1] سورہ ق / الآیۃ ۳۷۔ [ترجمہ: بے شک اس میں اس شخص کے لیے ضرور عبرت ونصیحت ہے، جس کے پاس دل ہے یا وہ (دماغ) حاضر کرکے کان لگا کر سنے]۔