کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 254
میں مشغول ہونا)جائز نہیں۔‘‘ ’’ فَلَیْسَ لِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ فِيْ الْحَضْرِ وَالْقَرْیَۃِ رُخْصَۃٌ فِيْ أَنْ یَدَعَ ‘‘۔[1] ’’اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی(مرد)کے لیے شہر اور گاؤں میں اسے (یعنی باجماعت نماز)چھوڑنے کی اجازت نہیں۔‘‘ میں(یعنی ابن جریج)نے عرض کیا: ’’ وَإِنْ کَانَ عَلٰی بَزٍّ یَبِیْعُہُ،یَفْرَقُ إِنْ قَامَ عَنْہُ،أَنْ یَضِیْعَ؟‘‘ ’’اگر وہ کپڑا فروخت کررہا ہو اور(جماعت کے لیے)اٹھنے سے اس کے ضیاع کا اندیشہ ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ وَإِنْ،لَا رُخْصَۃَ لَہُ فِيْ ذٰلِکَ ‘‘۔ ’’اگرچہ(کپڑے کے ضائع ہونے کا خدشہ)ہو،اس کے لیے اس بارے(یعنی جماعت چھوڑنے)میں کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’ إِنْ کَانَ بِہٖ رَمَدٌ،وَمَرَضٌ غَیْرُ حَابِسٍ أَوْ یَشْتَکِيْ یَدَیْہِ؟‘‘ ’’اگر اسے آشوبِ چشم اور غیر حابس(یعنی مسجد جانے کو ناممکن نہ بنانے والی)مرض ہو یا اس کے دونوں ہاتھ دُکھتے ہوں؟‘‘
[1] ایک اور روایت میں ہے: ’’فِيْ أَنْ یَدَعَ الصَّلَاۃَ‘‘ [یہ کہ وہ نماز (باجماعت) چھوڑے۔] ملاحظہ ہو: الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف ۴/ ۱۳۷۔